کولکاتا: بنگلہ دیش میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل عمل میں آئی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے جاری طلبا تحریک میں اب اتک 300 سے زیادہ افراد کے مارے جا چکے ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔
بنگلہ دیش کے دانشور فرہاد مظہر نے شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے اور عوامی لیگ کی قیادت والی حکومت کے خاتمے کے بعد ای ٹی وی بھارت سے بات کی۔ بان کا خیال ہے کہ نگلہ دیش میں حالات معمول آنے کا امکان روشن ہے مگر اس کے تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔اس کے لئے تمام لوگ کوشش کر رہے ہیں تاہم فرہاد مظہر نے کہاکہ یہ سب ایک دو دن میں نہیں ہوا۔ بنگلہ دیش کے لوگوں کی ناراضگی عرصے سے تھی ۔ شیخ حسینہ کو اس بات کا علم بھی تھا لیکن حکمراں حکمراں ہوتا ہے جو کسی کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔اسی وجہ سے پورا بنگلہ دیش شیخ حسینہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ شیخ حسینہ کے خلاف مظاہرے میں طلبا نے اہم رول ادا کیا۔
انہوں نے کہاکہ یہاں کی صورت حال ہمارے ملک اور برصغیر کے لیے بھی چیلنجنگ ہے۔ یہ دراصل ایک عوامی بغاوت ہے۔ عام لوگ اس بغاوت سے جڑے ہیں۔ طلبا رہنما کچھ اہم سوالات پوچھ رہے ہیں جو عام لوگوں کے مطالبات سے منسلک ہیں۔ کارل مارکس کے خیالات سے متاثر بنگلہ دیشی دانشور فرہاد مظہر نے کہا ہمیں اپنے ملک کی فکر ہے لیکن اس بات کا یقین ہے کہ مستقبل گزشتہ کل سے بہتر ہوگا۔
فرہاد مظہر بغاوت کرنے والے طلباء کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کے اس انتخاب کا خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ نوجوانوں نے عام لوگوں کے دلوں کی بات کو منظر عام پر لانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس وقت عبوری حکومت کی باگ دوڑ جس شخص کے ہاتھوں میں ہے وہ قابل اعتماد ہے۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو پہلے بھی ایسے کرداروں کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن انہوں نے ہمیشہ انکار کر دیا ہے۔ اب جبکہ انہوں نے طلباء کی پیشکش قبول کر لی ہے۔ یہ کافی اہم ہے۔
انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر کئی مقامات پر منصوبہ بند طریقے سے حملے کیے گئے ہیں۔ "گذشتہ چند دنوں میں ہم نے ہندوؤں پر منصوبہ بندی کے ساتھ حملے ہوتے دیکھے ہیں۔ حملہ آوروں کا تعلق بنیادی طور پر بنگلہ دیش عوامی لیگ سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شیخ حسینہ واجد کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والا طالب علم ناہد اسلام کون ہے؟
فرہاد مظہر نے سرحد کے اس پار رہنے والے بنگالیوں کے لیے ایک پیغام بھی دیا۔انہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش صرف تسلیمہ نسرین کی سرزمین نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مغربی بنگال اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان امن اور محبت غالب رہے۔ بنگالی زبان اور ثقافت میں بہت سی مماثلتیں ہیں لیکن اس کے انداز مختلف ہیں۔