لکھنو: چھوٹے امام باڑے کے احاطے سے شاہی کچن کا آغاز رمضان المبارک کے ابتداء سے ہی ہو جاتا ہے جہاں سے تقریبا 1500 ضرورت مندوں کو روزانہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ حسین آباد ٹرسٹ کے زیر انتظام 13 مساجد میں سحری اور افطاری میں کھانے کا ساز و سامان بھیجا جاتا ہے۔
نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ بتاتے ہیں کہ تقریبا 1839 کے قریب میں چھوٹا امام باڑے کی تعمیر مکمل ہوئی اور اسی دور سے شاہی باورچی خانہ سے عوام کو کھانا تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ بادشاہ محمد علی شاہ کے دور میں یہ شاہی باورچی شاہی خزانے سے چلتا تھا لیکن اس کے بعد محمد علی شاہ نے حسین آباد این آر آئی ٹرسٹ قائم کیا جو اب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے زیر انتظام ہے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چیئرمین ہوتے ہیں۔
اس ٹرسٹ میں بڑا امام باڑا پکچر گیلری اور چھوٹے امام باڑہ میں سیاحوں کے ٹکٹ کا جو پیسہ ہوتا ہے وہ حسین آباد ٹرسٹ کے خزانے میں جاتا ہے اور ٹرسٹ اپنے خزانے سے شاہی مطبخ چلاتا ہے۔ اس کا ٹینڈر ہر برس ہوتا ہے۔ رواں برس یہ ٹینڈر تقریبا 30 لاکھ کا تھا جس میں شاہی باورچی خانے کا مینو شامل تھا باورچی خانے سے ہر روز تقریبا 1500 غریب کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ پہلے غریبوں کو پرچی تقسیم کی جاتی ہے اور اس پرچی کے ذریعے ہی کھانا دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: تاج محل سے مشابہت رکھنے والا تاریخی چھوٹا امام باڑہ
کھانا تقسیم کرنے والے مرتضی عرف راجو نے بتایا کہ شاہی کچن میں گوشت کا استعمال نہیں ہوتا ہے جس کا صاف مقصد ہے کہ یہاں سبھی مذاہب کے لوگوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی انسانیت یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا نہ کہ مذہب دیکھنا۔ اور یہی وجہ ہے کہ شاہی کچن میں گوشت کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوابوں کی روایت آج بھی اسی طرز پر قائم ہے جس طرز پر قدیم زمانے میں بھوکے اور ضرورت مند کو کھانے اور لنگر تقسیم کیے جاتے تھے۔