لکھنو:ریاست اتر پردیش کے لکھنؤ میں چائے کا نام سنتے ہی ذہن میں شرما چائے والا کا ذکر آتا ہے جو اپنی چائے کے لیے بہت مشہور ہے۔ مختلف شہروں سے عوام کے ساتھ ساتھ سیاست سے وابستہ مشہور شخصیات بھی لکھنؤ آتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنؤ کے مختلف چوراہوں پر چائے کی کئی مشہور دکانیں ملیں گی جیسے کڑک ٹی اسٹال، چسکی تندوری چائے، ایرانی چائے، لیمن ٹی، گرین چائے ،مسالہ چائے اور کشمیری چائے سمیت مختلف اقسام کی چائے پینے کو ملے گی، لیکن لکھنو کے حضرت گنج کے پریس کلب کے سامنے شاہین نے لکھنو چائے والی کے نام سے ایک چھوٹی سی چاۓ اسٹال لگاتی ان کے جد جہد کی کہانی بلکل مختلف ہے۔
شاہین نے لکھنو کے ششی بھوشن ڈگری کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ان کے گھر پر کمانے والا کوئی نہیں تھا والد کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا کوئی بھائی نہیں ہے ۔مالی حالت بہتر نہیں ہے۔ ابتدا دنوں میں ریستوران کھولنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن رقم نہ ہونے کی وجہ سے چاۓ اسٹال لگانا پڑا ۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتدائی وقت میں چائے اسٹال لگانے کا فیصلہ بہت مشکل تھا کیونکہ سماج رشتہ دار عزیز و اقارب کا خوف تھا کہ وہ لوگ کہیں مذاق نہ اڑائیں یا طنز نہ کسیں لیکن حوصلہ ملتا گیا ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بزنس کریں گے اور چونکہ زیادہ رقم نہیں تھا اس وجہ سے چھوٹے سے رقم میں ہم نے چائے کا سٹال لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مسلم لڑکی ہونے کی وجہ سے چائے کا اسٹال لگانا ہی بہت بڑا چیلنجنگ ہے اور ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں چائے کی دکان پر کھڑے ہونے والی لڑکی کو کس کس طرح کے جملے طعنے سننے کو ملتے ہیں یہ بیان سے باہر ہے لیکن ان تمام چیزوں کا سامنا کرتی ہوں اور اس کو کبھی سیریس ہی نہیں لیا۔
یہ بھی پڑھیں:لکھنو: شاہی باورچی خانے کی روزہ داروں کو کھانا تقسیم کرنے کی روایت آج بھی برقرار - shahi kitchen of chota imambada
تعلیم یافتہ شاہین نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں اچھے برے سبھی لوگ اتے ہیں لیکن میں اپنے کام سے کام رکھتی ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنا ملازمت کے لیے نہیں تھا۔ میں پہلے ہی سے بزنس کے سلسلے میں سوچتی تھی۔ میں اس بزنس میں بہت مطمئن ہوں۔چائے کی دکان ہی کو اگے بڑھاؤں گی۔