ETV Bharat / state

اے ایم یو ویمنس کالج میں مظفر علی کی خود نوشت پر پینل مباحثہ - مظفر علی کی خود نوشت پر پینل مباحثہ

Autobiography of Muzaffar Ali علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ویمنس کالج آڈیٹوریم میں مشہور فلمساز و فنکار اور اے ایم یو کے سابق طالب علم مظفر علی کی خودنوشت ”ذکر“ (پینگوئن، 2022) پر مبنی ایک پینل مباحثہ کا اہتمام کیا گیا۔

Panel Discussion on Autobiography of Muzaffar Ali at AMU Women College
Panel Discussion on Autobiography of Muzaffar Ali at AMU Women College
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 27, 2024, 4:27 PM IST

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ویمنس کالج آڈیٹوریم میں طلباء، اساتذہ اور ادب و فن اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خوبصورت یادگاری شام ثابت ہوئی جب مشہور فلمساز و فنکار اور اے ایم یو کے سابق طالب علم مظفر علی کے ساتھ ان کی خودنوشت ”ذکر“ (پینگوئن، 2022) پر مبنی ایک پینل مباحثہ کا اہتمام کیا گیا۔ پینل میں شامل شعبۂ انگریزی کے چیئرمین پروفیسر محمد عاصم صدیقی اور آرٹ و کلچر کیوریٹر و جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وزٹنگ فیکلٹی عنبرین خان نے مظفر علی سے دلچسپ سوالات کیے، جن کے جوابات خوبصورت اشعار اور دلچسپ اقتباسات سے مزین تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

اے ایم یو اساتذہ نے ریسرچ و ڈیولپمنٹ فیئر میں اپنی اختراعات پیش کیں

مظفر علی نے اپنے جوابات میں ایک تجربہ کار شاعر کی طرح مختلف اشعار پیش کیے، جس سے حاضرین بخوبی محظوظ ہوئے۔ شعبۂ انگریزی کے پروفیسر محمد عاصم صدیقی مذکورہ خود نوشت پر ایک تبصرہ پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ گمن (1978)، امراؤ جان (1981)، آگمن (1982) اور انجمن (1986) جیسی فلمیں دینے والے مظفر علی نے اپنی یادوں اور اپنے فنی تجربات کو حاضرین کے سامنے دلکش انداز میں پیش کیا۔ اس سوال پر کہ انھیں پینٹنگ کی تحریک کہاں سے ملی اور شاعری میں انھوں نے کیسے دلچسپی لی، مظفر علی نے جواب دیا کہ ’شاعری اور پینٹنگ کا آپس میں گہرا رشتہ ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ”جب تک ایک تہذیب دوسری تہذیبوں کا احترام نہیں کرتی، تہذیبیں نہ ترقی کر سکتی ہیں اور نہ ہی محفوظ رہ سکتی ہیں“۔ ایک دیگر سوال کے جواب میں انھوں نے فلسفیانہ انداز میں کہا: جینے کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ رہنا۔ مظفر علی نے اپنے فلم سازی کے انداز، اصولوں اور نقطۂ نظر کے بارے میں بات کی اور اپنے فن کے اظہار کے مختلف گوشوں سے روشناس کرایا۔ پینل ڈسکشن کے بعد پروفیسر ایم شافع قدوائی (شعبۂ ترسیل عامہ، اے ایم یو) نے اپنے خطاب کا آغاز گایتری چکرورتی اسپیواک کے قول سے کیا۔ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ”خود نوشت ایک ایسا زخم ہے جہاں تاریخ کا خون خشک نہیں ہوتا“۔

ان کے خطاب نے حاضرین کو مظفر علی کی خودنوشت کا بخوبی اندازہ لگانے میں مدد کی۔ تقریب میں اے ایم یو قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز بطور مہمان خصوصی اور پروفیسر نعیمہ خاتون، پرنسپل، ویمنس کالج بطور مہمان اعزازی موجود رہے۔ پروفیسر گلریز نے اپنے خطاب میں سوانح عمریوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سوانح عمری مصنف کی زندگی کے تجربات اور کارناموں کو پیش کرتی ہے جو نوجوان نسل کو متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات رہنمائی بھی کرتی ہے۔ ویمنس کالج کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اور کچھ طلباء نے مظفر علی سے عمدہ سوالات بھی کیے۔ اس موقع پر متعدد حاضرین نے مصنف سے آٹوگراف شدہ کتاب حاصل کیں۔

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ویمنس کالج آڈیٹوریم میں طلباء، اساتذہ اور ادب و فن اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خوبصورت یادگاری شام ثابت ہوئی جب مشہور فلمساز و فنکار اور اے ایم یو کے سابق طالب علم مظفر علی کے ساتھ ان کی خودنوشت ”ذکر“ (پینگوئن، 2022) پر مبنی ایک پینل مباحثہ کا اہتمام کیا گیا۔ پینل میں شامل شعبۂ انگریزی کے چیئرمین پروفیسر محمد عاصم صدیقی اور آرٹ و کلچر کیوریٹر و جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وزٹنگ فیکلٹی عنبرین خان نے مظفر علی سے دلچسپ سوالات کیے، جن کے جوابات خوبصورت اشعار اور دلچسپ اقتباسات سے مزین تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

اے ایم یو اساتذہ نے ریسرچ و ڈیولپمنٹ فیئر میں اپنی اختراعات پیش کیں

مظفر علی نے اپنے جوابات میں ایک تجربہ کار شاعر کی طرح مختلف اشعار پیش کیے، جس سے حاضرین بخوبی محظوظ ہوئے۔ شعبۂ انگریزی کے پروفیسر محمد عاصم صدیقی مذکورہ خود نوشت پر ایک تبصرہ پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ گمن (1978)، امراؤ جان (1981)، آگمن (1982) اور انجمن (1986) جیسی فلمیں دینے والے مظفر علی نے اپنی یادوں اور اپنے فنی تجربات کو حاضرین کے سامنے دلکش انداز میں پیش کیا۔ اس سوال پر کہ انھیں پینٹنگ کی تحریک کہاں سے ملی اور شاعری میں انھوں نے کیسے دلچسپی لی، مظفر علی نے جواب دیا کہ ’شاعری اور پینٹنگ کا آپس میں گہرا رشتہ ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ”جب تک ایک تہذیب دوسری تہذیبوں کا احترام نہیں کرتی، تہذیبیں نہ ترقی کر سکتی ہیں اور نہ ہی محفوظ رہ سکتی ہیں“۔ ایک دیگر سوال کے جواب میں انھوں نے فلسفیانہ انداز میں کہا: جینے کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ رہنا۔ مظفر علی نے اپنے فلم سازی کے انداز، اصولوں اور نقطۂ نظر کے بارے میں بات کی اور اپنے فن کے اظہار کے مختلف گوشوں سے روشناس کرایا۔ پینل ڈسکشن کے بعد پروفیسر ایم شافع قدوائی (شعبۂ ترسیل عامہ، اے ایم یو) نے اپنے خطاب کا آغاز گایتری چکرورتی اسپیواک کے قول سے کیا۔ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ”خود نوشت ایک ایسا زخم ہے جہاں تاریخ کا خون خشک نہیں ہوتا“۔

ان کے خطاب نے حاضرین کو مظفر علی کی خودنوشت کا بخوبی اندازہ لگانے میں مدد کی۔ تقریب میں اے ایم یو قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز بطور مہمان خصوصی اور پروفیسر نعیمہ خاتون، پرنسپل، ویمنس کالج بطور مہمان اعزازی موجود رہے۔ پروفیسر گلریز نے اپنے خطاب میں سوانح عمریوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سوانح عمری مصنف کی زندگی کے تجربات اور کارناموں کو پیش کرتی ہے جو نوجوان نسل کو متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات رہنمائی بھی کرتی ہے۔ ویمنس کالج کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اور کچھ طلباء نے مظفر علی سے عمدہ سوالات بھی کیے۔ اس موقع پر متعدد حاضرین نے مصنف سے آٹوگراف شدہ کتاب حاصل کیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.