ETV Bharat / state

گیا: پرانے قیمتی قلم کا ذخیرہ بینک لاکر میں، آخر کیوں؟ - Old valuable pens in Gaya

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 10, 2024, 4:56 PM IST

Updated : Jul 10, 2024, 5:55 PM IST

شہر گیا میں ایک شخص کے پاس قلم کے ذخیرے ہیں۔ جس کی حفاظت کی غرض سے اُسے بینک کے ' لاکر ' میں رکھا جاتا ہے۔ مہنگے اور تاریخی اعتبار سے بھی اس کی ایک خاص حیثیت ہے۔ 100 سے زائد قلم کے اس ذخیرے میں سنہ 1880 سے لیکر 1940 کے درمیان کے سونے چاندی پلٹنیم تانبا اور لکڑی کے نایاب قیمتی اور بڑے برانڈز کے قلم ہیں۔ مجموعی طور پر اس کی قیمت کروڑ میں ہے۔ اتنےنایاب قلم کے ذخیرے کے مالک شہر گیا کے چھتہ مسجد کے رہنے والے ' سید شاہ جاوید یوسف ' ہیں۔ اس حوالے سے پڑھیں خاص رپورٹ

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

گیا: ایک کہاوت ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ علامتی کہاوت صرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تحریری لفظ وسیع تر خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ قلم کی اہمیت اس کے ایجاد کے روز اول سے ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں ہم اس قلم کی اہمیت اس کے استعمال تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ استعمال کر قلم کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو استعمال کی ہوئی دوسری خراب ہوگئی چیزوں کا ہوتا ہے۔ یعنی کہ کاغذ کے ردی کی طرح قلم کی روشنائی ختم ہونے کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ کوڑے کی زینت اس لیے بھی بنا دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس جو قلم ہوتا ہے وہ زیادہ مہنگا نہیں ہوتا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو برسوں پرانے قلم کو سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ محفوظ قلم لاکھوں کی قیمت کے ہیں۔ لیکن ہم آپ کو مہنگے، سستے پرانے اور تاریخی قلم کو سنبھال کر رکھنے کے ایک بڑے شوقین اور قدرداں کے حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافے کریں گے۔

Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

دراصل آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو چاندی، سونے کے سکے رکھنے کابے حد شوق ہوتا ہے۔ یا پھر کسی کو کسی اور چیز کو جمع کرکے رکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص سے روبرو کرائیں گے اور ان کے کے بارے میں بتائیں گے، جسے جان کر آپ قدرے حیران رہ جائیں گے' واہ ایسے بھی لوگ ہیں۔ دراصل گیا بہار کے رہنے والے محمد جاوید یوسف کو قلم جمع کرنے کا شوق ہے اور یہ شوق انہیں وراثت میں ملا ہے۔ ان کے پاس قلم ' اقلام ' کی ایک بڑی تعداد ہے۔ بلکہ یہ کہا جانا بے معنی نہیں ہوگا کہ انکے پاس قلموں کی لائبریری ہے۔ جس میں 100 سے زائد قیمتی قلم ان کے پاس محفوظ ہیں اور یہ قلم کوئی معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہیں اور انکی قدامت بھی ڈیڑھ سو برس یا اس سے زیادہ کی ہے۔ ان کے پاس زیادہ تر قلم 1880 سے 1960 تک کے ہیں۔ جن کی قیمت آج لاکھوں میں ہے

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

دادا کے شوق کو اپنایا

محمد جاوید یوسف کے دادا اور والد کو قلم خریدنے کا شوق تھا۔ ان کے دادا برطانوی حکومت میں ڈی ایس پی تھے جبکہ ان کے والد مجسٹریٹ رہتے ہوئے ڈی ایم کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان دنوں ان کے دادا اور والد لکھنے کے لیے بہت سے قلم خریدا کرتے تھے۔ جو بہت مہنگے اور نایاب ہوتے تھے۔ ان کے پاس پارکر، پیلیکن، آئیکر شارپ، رولڈ گولڈ، شیفرز، کراس ڈاٹ پین جیسی برانڈڈ کمپنیوں کے قلم اور پینسل ہوتے تھے۔ جن کی قیمت 100 برس قبل 15 سے 60 ہزار روپے ہوتی تھی۔ لیکن آج ان قلموں کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ جاوید یوسف کو بچپن سے ہی دادا اور والد کو مہنگے قلم رکھنے کے شوق سے بڑی دلچسپی ہوگئی تھی۔ وہ اپنے دادا اور والد کو دیکھتے تھے کہ جو قلم خراب ہوگیا یا اسکی روشنائی ختم ہوجاتی تو اسے پھینکتے نہیں بلکہ اسے درست کراکر گھر میں محفوظ جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ بعد میں یوسف نے دادا اور والد کے انتقال کے بعد ان قلم کی حفاظت کرنے لگے اور انہوں نے خود کئی بڑی کمپنیوں کے کئی مہنگی قیمت کا قلم خرید کر رکھا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے انکے پاس صرف مہنگی قیمت کے قلم ہیں بلکہ کئی قلم ایسے بھی ہیں جنکی قیمت آج کے وقت میں 100 روپے تک ہی ہوگی۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)
Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

پرانے قلم کی ہے یہ خاصیت

جاوید یوسف کے پاس موجود قلموں کی خاصیت یہ ہے کہ تمام قلموں کی نب اور کور گولڈ اور پلاٹینم کا ہے۔ بہت سے قلم ایسے ہیں جو 24 کیریڈ سونے سے بنے ہیں۔ کچھ تو ایسے قلم ہیں جنکی مینوفیکچرنگ بند ہو گئی ہے، لیکن اس قلم کی خاصیت سے متعارف لوگ جہاں کہیں بھی وہ قلم ملتا ہے تو وہ لاکھوں روپے قیمت ادا کر خرید لیتے ہیں۔ جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ قلم کے ذخیرے میں ان کے پاس سونے، چاندی، تانبے، لکڑی، بانس اور کاغذ سے بنی قلمیں بھی شامل ہیں۔ وہ قلم بھی ہیں جن کا وجود آج ختم ہوچکا ہے۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

چوری نا ہوجائے اس لیے رکھتے ہیں لاکر میں

جاوید یوسف کے پاس جو قلم ہیں وہ آج تک تمام ' قلم ' کام کرنے کی حالت میں ہیں۔ مہنگے قیمتی اور پرانے قلم ہونے کی وجہ سے اس کی حفاظت کے لیے جاوید یوسف نے تمام قلموں کو محفوظ طریقے سے' بینک لاکر ' میں رکھا ہے۔ تاکہ ان کی چوری نہیں ہو اور یہ ورثہ ان کے پاس صحیح سلامت ہو۔ ایک انتہائی مضبوط اور نمبر سے لاک ہونے والی اٹیچی میں تمام قلموں کو بند کر لاکر میں رکھتے ہیں۔ جاوید یوسف نے بتایا کہ دو تین ماہ پر قلموں کو' بینک لاکر ' سے نکال کر اسکی صفائی اور تیل اور پالش بھی کرتے ہیں۔ تاکہ اسکی چمک دمک برقرار رہے اور ساتھ ہی وہ چالو حالت میں بھی رہے اور اسکی اصل حالت باقی رہے کیونکہ اتنے نایاب اور پرانے قلم اب ملتے نہی ہیں۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

قلم کا ایک سیٹ پانچ لاکھ سے زیادہ قیمت کا ہے

جاوید یوسف نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ آج سے 100 برس قبل یہ قلم تین عدد پر مشتمل ایک سیٹ میں ملتا تھا۔ ان کے پاس جتنے بھی قلم ہیں وہ بیرونی ممالک امریکہ ، لندن، فرانس اور دیگر ممالک سے منگوائے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پارکر اور شیفرز جیسی کمپنیوں کے قلم کی قیمت آج کی تاریخ میں 2 سے 5 لاکھ روپے ہے۔ محمد جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جو قلم ہے وہ نایاب اور مہنگا ہے۔ آج یہ قلم بازار میں ملنا مشکل ہے۔ ان کے والد سید شاہ علی نظیر اور دادا کو قلم کا بہت شوق تھا اور وہ ان دنوں جب اپنے دفتر جاتے تو کئی قلم لے کر دفتر جاتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ہم نے بہت سارے قلم بھی جمع کیے، جن میں کچھ قلم کو انہوں نے مہنگی قیمت دےکر خریدا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج انکے پاس برانڈڈ کمپنیوں کے 100 سے زیادہ مہنگے قلم ہیں۔ یہ تمام قلم 1880 سے 1960 تک کے ہیں۔ ان قلموں کی خاصیت یہ ہے کہ ان سب پر سونے اور پلاٹینم جڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے قلموں کی نب بھی سونے کی ہے۔ انگریزی دور اقتدار کا پنسل کا بھی سیٹ ہے جو اسوقت چالیس ہزار کی قیمت پر خریدا گیا تھا، آج اسکی قیمت تین لاکھ سے پانچ لاکھ تک ہے۔ کیونکہ وہ سونے سے بنی ہوئی پینسل ہے۔ ابھی انکے پاس جتنے قلم اور پینسل ہیں مجموعی طور پر انکی قیمت ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ لاکر میں رکھنے کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔

شوق کا کوئی مول نہیں۔

جاوید یوسف نے کہاکہ چونکہ ہمیں شوق ہے پرانی چیزوں کے جمع کرنے کا۔ یہ قلم بھی بہت ہی ریر اور اینٹک ہے۔ قلم ایسی چیز ہے جو تعلیم کے ذریعے انسان کو ایک عظیم شخصیت بنا دیتی ہے۔ اس لیے ہم نے قلم کے ذخیرے کو سنجوکر رکھا ہے، مستقبل کے لیے بھی اور مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی۔ کیونکہ وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ کیسے کیسے زمانہ آگے بڑھا۔ اب تو طرح طرح کے قلم نکل گئے ہیں لیکن کس کس دور سے گزرا ہے یہ قلم اسکو بھی نئی نسل سمجھے، ہمارے پاس والد اور دادا کے زمانے سے پہلے کے بھی دوات اور قلم، کنڈے کا قلم اور ہولڈر یہ سب بھی ہیں۔ ہمارے بعد ہمارے بھائی، بھتیجے اور انکے بچے اس کی حفاظت کریں گے۔

گیا: ایک کہاوت ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ علامتی کہاوت صرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تحریری لفظ وسیع تر خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ قلم کی اہمیت اس کے ایجاد کے روز اول سے ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں ہم اس قلم کی اہمیت اس کے استعمال تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ استعمال کر قلم کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو استعمال کی ہوئی دوسری خراب ہوگئی چیزوں کا ہوتا ہے۔ یعنی کہ کاغذ کے ردی کی طرح قلم کی روشنائی ختم ہونے کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ کوڑے کی زینت اس لیے بھی بنا دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس جو قلم ہوتا ہے وہ زیادہ مہنگا نہیں ہوتا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو برسوں پرانے قلم کو سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ محفوظ قلم لاکھوں کی قیمت کے ہیں۔ لیکن ہم آپ کو مہنگے، سستے پرانے اور تاریخی قلم کو سنبھال کر رکھنے کے ایک بڑے شوقین اور قدرداں کے حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافے کریں گے۔

Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

دراصل آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو چاندی، سونے کے سکے رکھنے کابے حد شوق ہوتا ہے۔ یا پھر کسی کو کسی اور چیز کو جمع کرکے رکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص سے روبرو کرائیں گے اور ان کے کے بارے میں بتائیں گے، جسے جان کر آپ قدرے حیران رہ جائیں گے' واہ ایسے بھی لوگ ہیں۔ دراصل گیا بہار کے رہنے والے محمد جاوید یوسف کو قلم جمع کرنے کا شوق ہے اور یہ شوق انہیں وراثت میں ملا ہے۔ ان کے پاس قلم ' اقلام ' کی ایک بڑی تعداد ہے۔ بلکہ یہ کہا جانا بے معنی نہیں ہوگا کہ انکے پاس قلموں کی لائبریری ہے۔ جس میں 100 سے زائد قیمتی قلم ان کے پاس محفوظ ہیں اور یہ قلم کوئی معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہیں اور انکی قدامت بھی ڈیڑھ سو برس یا اس سے زیادہ کی ہے۔ ان کے پاس زیادہ تر قلم 1880 سے 1960 تک کے ہیں۔ جن کی قیمت آج لاکھوں میں ہے

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

دادا کے شوق کو اپنایا

محمد جاوید یوسف کے دادا اور والد کو قلم خریدنے کا شوق تھا۔ ان کے دادا برطانوی حکومت میں ڈی ایس پی تھے جبکہ ان کے والد مجسٹریٹ رہتے ہوئے ڈی ایم کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان دنوں ان کے دادا اور والد لکھنے کے لیے بہت سے قلم خریدا کرتے تھے۔ جو بہت مہنگے اور نایاب ہوتے تھے۔ ان کے پاس پارکر، پیلیکن، آئیکر شارپ، رولڈ گولڈ، شیفرز، کراس ڈاٹ پین جیسی برانڈڈ کمپنیوں کے قلم اور پینسل ہوتے تھے۔ جن کی قیمت 100 برس قبل 15 سے 60 ہزار روپے ہوتی تھی۔ لیکن آج ان قلموں کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ جاوید یوسف کو بچپن سے ہی دادا اور والد کو مہنگے قلم رکھنے کے شوق سے بڑی دلچسپی ہوگئی تھی۔ وہ اپنے دادا اور والد کو دیکھتے تھے کہ جو قلم خراب ہوگیا یا اسکی روشنائی ختم ہوجاتی تو اسے پھینکتے نہیں بلکہ اسے درست کراکر گھر میں محفوظ جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ بعد میں یوسف نے دادا اور والد کے انتقال کے بعد ان قلم کی حفاظت کرنے لگے اور انہوں نے خود کئی بڑی کمپنیوں کے کئی مہنگی قیمت کا قلم خرید کر رکھا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے انکے پاس صرف مہنگی قیمت کے قلم ہیں بلکہ کئی قلم ایسے بھی ہیں جنکی قیمت آج کے وقت میں 100 روپے تک ہی ہوگی۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)
Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

پرانے قلم کی ہے یہ خاصیت

جاوید یوسف کے پاس موجود قلموں کی خاصیت یہ ہے کہ تمام قلموں کی نب اور کور گولڈ اور پلاٹینم کا ہے۔ بہت سے قلم ایسے ہیں جو 24 کیریڈ سونے سے بنے ہیں۔ کچھ تو ایسے قلم ہیں جنکی مینوفیکچرنگ بند ہو گئی ہے، لیکن اس قلم کی خاصیت سے متعارف لوگ جہاں کہیں بھی وہ قلم ملتا ہے تو وہ لاکھوں روپے قیمت ادا کر خرید لیتے ہیں۔ جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ قلم کے ذخیرے میں ان کے پاس سونے، چاندی، تانبے، لکڑی، بانس اور کاغذ سے بنی قلمیں بھی شامل ہیں۔ وہ قلم بھی ہیں جن کا وجود آج ختم ہوچکا ہے۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

چوری نا ہوجائے اس لیے رکھتے ہیں لاکر میں

جاوید یوسف کے پاس جو قلم ہیں وہ آج تک تمام ' قلم ' کام کرنے کی حالت میں ہیں۔ مہنگے قیمتی اور پرانے قلم ہونے کی وجہ سے اس کی حفاظت کے لیے جاوید یوسف نے تمام قلموں کو محفوظ طریقے سے' بینک لاکر ' میں رکھا ہے۔ تاکہ ان کی چوری نہیں ہو اور یہ ورثہ ان کے پاس صحیح سلامت ہو۔ ایک انتہائی مضبوط اور نمبر سے لاک ہونے والی اٹیچی میں تمام قلموں کو بند کر لاکر میں رکھتے ہیں۔ جاوید یوسف نے بتایا کہ دو تین ماہ پر قلموں کو' بینک لاکر ' سے نکال کر اسکی صفائی اور تیل اور پالش بھی کرتے ہیں۔ تاکہ اسکی چمک دمک برقرار رہے اور ساتھ ہی وہ چالو حالت میں بھی رہے اور اسکی اصل حالت باقی رہے کیونکہ اتنے نایاب اور پرانے قلم اب ملتے نہی ہیں۔

Old valuable pens in Gaya
Old valuable pens in Gaya (Etv bharat)

قلم کا ایک سیٹ پانچ لاکھ سے زیادہ قیمت کا ہے

جاوید یوسف نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ آج سے 100 برس قبل یہ قلم تین عدد پر مشتمل ایک سیٹ میں ملتا تھا۔ ان کے پاس جتنے بھی قلم ہیں وہ بیرونی ممالک امریکہ ، لندن، فرانس اور دیگر ممالک سے منگوائے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پارکر اور شیفرز جیسی کمپنیوں کے قلم کی قیمت آج کی تاریخ میں 2 سے 5 لاکھ روپے ہے۔ محمد جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جو قلم ہے وہ نایاب اور مہنگا ہے۔ آج یہ قلم بازار میں ملنا مشکل ہے۔ ان کے والد سید شاہ علی نظیر اور دادا کو قلم کا بہت شوق تھا اور وہ ان دنوں جب اپنے دفتر جاتے تو کئی قلم لے کر دفتر جاتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ہم نے بہت سارے قلم بھی جمع کیے، جن میں کچھ قلم کو انہوں نے مہنگی قیمت دےکر خریدا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج انکے پاس برانڈڈ کمپنیوں کے 100 سے زیادہ مہنگے قلم ہیں۔ یہ تمام قلم 1880 سے 1960 تک کے ہیں۔ ان قلموں کی خاصیت یہ ہے کہ ان سب پر سونے اور پلاٹینم جڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے قلموں کی نب بھی سونے کی ہے۔ انگریزی دور اقتدار کا پنسل کا بھی سیٹ ہے جو اسوقت چالیس ہزار کی قیمت پر خریدا گیا تھا، آج اسکی قیمت تین لاکھ سے پانچ لاکھ تک ہے۔ کیونکہ وہ سونے سے بنی ہوئی پینسل ہے۔ ابھی انکے پاس جتنے قلم اور پینسل ہیں مجموعی طور پر انکی قیمت ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ لاکر میں رکھنے کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔

شوق کا کوئی مول نہیں۔

جاوید یوسف نے کہاکہ چونکہ ہمیں شوق ہے پرانی چیزوں کے جمع کرنے کا۔ یہ قلم بھی بہت ہی ریر اور اینٹک ہے۔ قلم ایسی چیز ہے جو تعلیم کے ذریعے انسان کو ایک عظیم شخصیت بنا دیتی ہے۔ اس لیے ہم نے قلم کے ذخیرے کو سنجوکر رکھا ہے، مستقبل کے لیے بھی اور مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی۔ کیونکہ وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ کیسے کیسے زمانہ آگے بڑھا۔ اب تو طرح طرح کے قلم نکل گئے ہیں لیکن کس کس دور سے گزرا ہے یہ قلم اسکو بھی نئی نسل سمجھے، ہمارے پاس والد اور دادا کے زمانے سے پہلے کے بھی دوات اور قلم، کنڈے کا قلم اور ہولڈر یہ سب بھی ہیں۔ ہمارے بعد ہمارے بھائی، بھتیجے اور انکے بچے اس کی حفاظت کریں گے۔

Last Updated : Jul 10, 2024, 5:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.