ممبئی: 24 مئی کو مہاراشٹر وقف بورڈ میں مینارہ مسجد جو وقف کی ملکیت ہے۔ اس بارے میں سنوائی ہوگی۔ حالانکہ مینارہ مسجد ٹرسٹ نے اس سنوائی سے بچنے کے لیے ممبئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے مینارہ مسجد ٹرسٹ کو کوئی مہلت یا راحت نہیں دی۔ کورٹ نے 8 مئی کے حکم میں یہ کہا ہے کہ مہاراشٹر وقف بورڈ 52 اے کے قوانین کے تحت جو کارروائی کر رہی ہے اس کارروائی میں کوئی فیصلہ وقف بورڈ نہ لے۔ لیکن کارروائیوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کہا ہے۔ اس طرح سے مینارہ مسجد ٹرسٹیان کے سر پر گرفتاری کی جو تلوار لٹک رہی تھی اُس کے لیے 14 دن کی راحت ملی۔ حالانکہ ٹرسٹ نے وقف بورڈ کی کارروائی پر خود کو ہائی کورٹ سے راحت ملنے کی بات کہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
پچھتر سے زائد وقف ملکیت فروخت کرنے پر مینارہ مسجد ٹرسٹ کو وقف بورڈ کی ایک اور نوٹس
مینارہ مسجد اور اس پر غیر قانونی طریقہ سے قابض ٹرسٹیان کی حقیقت بڑی دلچسپ ہے۔ جسے جاننا بیحد ضروری ہے۔ دراصل اس ٹرسٹ کی جانب سے 200 کروڑ کی وقف ملکیت کو غیر قانونی طریقے سے ٹرانسفر کیا گیا۔ معاملے کی شکایت مہاراشٹر وقف بورڈ میں کی گئی۔ 20 دسمبر 2023 کو مہاراشٹر وقف بورڈ نے مینارہ مسجد ٹرسٹ کو پہلی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کی جب کہ دوسری نوٹس 7 مارچ 2024 کو جاری ہوئی۔ دونوں نوٹس میں وقف بورڈ نے جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دی تھی۔ چونکہ مینارہ مسجد ٹرسٹ سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا اس لیے تیسری نوٹس 24 اپریل 2024 کو دی گئی۔ اس نوٹس میں جواب نہ دینے کے سبب وقف بورڈ نے سنوائی کے لیے طلب کیا اور 8 مئی کی تاریخ مقرر کی۔ 8 مئی کی سنوائی کے دوران پھر مہلت مانگی گئی، اس لیے وقف بورڈ نے مزید مہلت دیتے ہوئے 24 مئی کو سنوائی کی اگلے تاریخ مقرر کی۔ مینارہ مسجد ٹرسٹ نے وقف بورڈ کی سنوائی سے بچنے کے لیے ہائی کورٹ کا سہارا لیا۔
6 مئی کو مہاراشٹر وقف بورڈ نے ایک نوٹس جاری کی۔ اس نوٹس میں واضح کیا گیا کہ مینارہ مسجد ٹرسٹ میں جو ٹرسٹ اور متولیان ہیں وہ غیر قانونی طریقے سے قابض ہیں۔ انہیں وقف بورڈ نے منتخب ہی نہیں کیا۔ بورڈ نے کہا کہ 2007 میں جن لوگوں کو مقرر کیا گیا ہے وہی لوگ ٹرسٹ میں رہیں گے۔ اس کے علاوہ جو لوگ ہیں اُنہیں جب وقف بورڈ نے مقرر ہی نہیں کیا تو وہ غیر قانونی طریقے سے کیسے قابض ہوگئے۔
سپریم کورٹ نے اکتوبر 2022 میں یہ فرمان جاری کیا تھا کہ ریاست کی ہر وہ املاک جو یہ کہتے ہیں کہ وہ وقف کی املاک نہیں ہیں۔ وہ چیریٹی کمشنر میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا جواب وقف بورڈ میں داخل کریں۔ اس کے لیے سپریم کورٹ نے 8 ہفتوں کی میعاد طے کی تھی اور کہا کہ اگر مقررہ میعاد کے جواب نہیں دیا گیا تو اُس کے بعد آپ کا دعویٰ خارج ہوجائے گا اور 2003 کا وقف کا جو قانون ہے وہ بحال ہوجائے گا اور اسی کو آخری مانا جائے گا اور مینارہ مسجد ٹرسٹ 2003 کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ مینارہ مسجد 8 ہفتوں میں اپنا جواب داخل میں ناکام رہی۔ اُنہوں نے ریکارڈ سے چھیڑ چھاڑ بھی کی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ جواب اُن لوگوں کو دینے کے لیے کہا۔
وہ لوگ ٹرسٹ جو بامبے پبلک ٹرسٹ 1950 کے تحت رجسڑڈ ہیں جو بامبے ہائی کورٹ کے اندر پٹیشنر تھے۔ اور جو سپریم کورٹ میں بھی فریقین تھے اور جن کو خصوصی کمیٹی کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ چونکہ مینارہ مسجد ٹرسٹ کو خصوصی کمیٹی کی حمایت نہیں ملی۔ اُس کے باوجود وقف بورڈ نے ان کی عرضی قبول کی۔ اس عرضی میں اُنہوں نے خود کو وقف بورڈ سے الگ بتایا۔ لیکن ایک برس تک معاملہ ٹھنڈے بستے میں رہا اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن 27 مارچ 2024 کو مینارہ مسجد کی عرضی وقف بورڈ نے خارج کر دی۔ اور اس ملکیت کو وقف بورڈ کی ملکیت قرار دیا۔