علیگڑھ: 'خوراک کے تحفظ میں خواتین کا کردار: خلا کو پُر کرنا' کے موضوع پر یک روزہ قومی سمینار میں ڈائرکٹر، ایڈوانسڈ سینٹر فار ویمنس اسٹڈیز، پروفیسر عذرا موسوی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور سمینار کے موضوع کا تعارف کرایا۔ اس موقعے پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مہمان خصوصی نے پروفیسر حنا بجلی نے فوڈ سکیورٹی پر روشنی ڈالتے ہوئے غذائی تحفظ کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا آج کل ہندوستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر (human development Indicators) میں اور دنیا میں زچگی کے دوران اموات کی وجہ غذائیت ہے۔ اس میں ہندوستان میں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں کیونکہ خواتین کو زچگی کے دوران مکمل متوازن غزا نہیں مل پاتی۔ اس لیے اگر ہمیں بھارت کو ایک ترکی پسند ملک بنانا ہے تو ہمیں خواتین کی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔ انہوں نے خواتین کو زرعی ٹیکنالوجی میں تعلیم دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ٹیکنالوجی کے کردار پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر بجلی نے خواتین کے مواقعے اور پہچان پر اثرات پر زور دیتے ہوئے سماجی انتظامات اور محنت کی غیر متناسب تقسیم پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ غربت میں خواتین کو درپیش چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے، پروفیسر بجلی نے مزید مربوط پالیسی اپروچ کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نے خواتین کی صحت کے تصورات کو متاثر کرنے والی شادی پر تشویش کا اظہار کیا ۔
انہوں نے کہا کہ اسکے لئے مقامی، عالمی، قومی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ پروفیسر بجلی نے دیہی علاقوں میں وسائل کی کمی کی نشاندہی کی اور کہا کہ خواتین میں خون کی کمی اور انکی صحت بڑی تشویش کے طور پر ابھری۔ اس نے ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں بچوں کی اموات میں حیران کن اضافے کو اجاگر کرتے ہوئے بچوں میں غذائیت کی کمی کے نشانات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے سوچھ بھارت اور بیٹی بچاؤ جیسے اقدامات کے نتائج پر نظرثانی اور تحقیق کرنے پر زور دیا۔ معاش کے طریقوں کو فروغ دینے میں سماجی کاروباریوں کے کردار اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگراموں کے لیے سماجی سرمائے کو استعمال کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:نیشنل ای لائبریری کے افتتاح کے ساتھ نئی دہلی عالمی کتاب میلے کا شاندار افتتاح
پروفیسر عذرا موسوی نے وسائل کی تقسیم اور سماجی اصولوں میں صنفی بنیاد پر ہورہی تفریق پر روشنی ڈالی اور کہا کہ خواتین ان مسائل کو حل کریں اسکے لئے تحقیق اور پروگراموں کی ضرورت ہے اور ایسے میں مطالعاتی مراکز کی اہمیت مذید بڑھ جاتی ہے۔نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر توصیف فاطمہ نے سبھی مہامانا کا استقبال کیا وور شیراز احمد نے شکریہ ادا کیا۔