ETV Bharat / state

لوک سبھا انتخابات کو لے کر گیا کے مسلمانوں میں عدم دلچسپی - Sabha Elections 2024

Muslims Keep Distance From Elections گیا پارلیمانی حلقہ میں پہلے مرحلے کے تحت حق رائے دہی کا استعمال ہوگا۔ نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم دو بڑے اتحاد ' این ڈی اے اور انڈیا' اتحاد کے امیدواروں کی جانب سے 28 مارچ کو پرچہ داخل کیا جائے گا لیکن اس دوران سبھی کے لیے حیران کن یہ کہ امیدوار گاوں محلوں کا طوفانی دورہ کررہے ہیں تاہم اس میں مسلمانوں کی موجودگی اور دلچسپی ظاہر نہیں ہورہی ہے۔

لوک سبھا انتخابات کو لے کر گیا کے مسلمانوں میں عدم دلچسپی
لوک سبھا انتخابات کو لے کر گیا کے مسلمانوں میں عدم دلچسپی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 26, 2024, 12:35 PM IST

لوک سبھا انتخابات کو لے کر گیا کے مسلمانوں میں عدم دلچسپی

گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا میں پارلیمانی انتخابات کو لے کر کوئی خاصی ہلچل مسلمانوں میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محفوظ سیٹ ایس سی ایس ٹی طبقہ کے لئے ہے ۔گزشتہ 25 برسوں سے مانجھی برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما ہی رکن پارلیمان بن رہے ہیں۔ گزشتہ25 برسوں سے مانجھی بمقابلہ مانجھی ہی ہوتا تھا لیکن اس بار اے آئی ایم آئی ایم اور آر جے ڈی نے پاسوان برادری سے امیدوار کھڑا کیا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ مانجھی بنام مانجھی نہیں بلکہ مانجھی بنام پاسوان ہوسکتا ہے۔

لیکن ان سب کے درمیان گیا میں مقابلہ این ڈی اے بنام انڈیا اتحاد ہی طے ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور ایجنڈوں کے بجائے پھر سے پرانی روایتوں کی طرح ایجنڈے طے کر دیے گئے ہیں۔ این ڈی اے میں ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کو گیا پارلیمانی سیٹ ملی ہے۔امیدوار سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی ہیں۔ مانجھی این ڈی اے میں بی جے پی کے کوٹے سے ہیں۔اس کا اثر بھی ان پر واضح طور پر دکھ رہا ہے۔

مانجھی نتیش کمار کے بنسبت بی جے پی کی قصیدہ خوانی زیادہ کررہے ہیں۔ مانجھی نے اپنے نام کا اعلان ہوتے ہی ہندوتوا کی سیاست کا بڑا پیغام دیاہے۔ کچھ ماہ قبل رام کے وجود سے انکار کرنے والے مانجھی کا دل اچانک بدل گیا۔اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے سے پہلے ایودھیا جاکر رام مندر کی زیارت کریں گے۔

اُنہوں نے ایسا کیا بھی ہے اور اطلاع کے مطابق 28 مارچ کو نامزدگی کا پرچہ داخل کریں گے۔ جبکہ پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں قسمت آزمانے کا موقع آر جے ڈی نے سابق ریاستی وزیر کمار سروجیت کو دیا ہے۔ سروجیت پاسوان برادری سے آتے ہیں، مقابلہ سخت تو تسلیم کیا جارہا ہے لیکن پلڑا کس کا بھاری ہے ۔ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ابھی تصویر اور واضح ہونی باقی ہے لیکن ان سب کے درمیان گیا پارلیمانی حلقہ میں مسلم ووٹروں کی خاموشی انڈیا اتحاد' آر جے ڈی' کو ستانے لگی ہے۔

انڈیا اتحاد میں چاروں سیٹوں پر آر جے ڈی نے اپنا امیدوار کھڑا کردیا ہے حالانکہ اورنگ آباد کانگریس کی روایتی نشست ہے لیکن آر جے ڈی نے یہاں جے ڈی یو کے ضلع صدر کو ہی امیدوار بنادیا۔ اورنگ آباد پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے اور یہاں سے مسلم رہنماؤں کی امیدواری کا مطالبہ تھا لیکن آر جے ڈی نے اس کو نظر انداز کر مسلم طبقہ سے بھی کم آبادی والی برادری ' کوشواہا ' برادری کے رہنما کو ٹکٹ دے دیا جسکی وجہ سے ناراضگی سامنے آگئی ہے حالانکہ آر جے ڈی کو توقع ہے کہ ناراضگی ختم ہو جائے گی لیکن پھر بھی مسلم ووٹروں کی خاموشی ان کے لیے پریشان کن ہے۔

گیا میں مسلمانوں کے درمیان سیاسی ہلچل نہیں ہونے کے سوال پر محمد دستگیر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ کئی وجہیں ہیں جن میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی رمضان ہے اور مسلم معاشرہ عبادتوں ریاضتوں اور ضروری کاموں تجارت وغیرہ میں مشغول ہے۔ گاوں، دیہاتوں میں ربیع فصل کی کٹائی کا بھی وقت ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں میں سیاسی ہلچل نہیں ہے جبکہ دوسری وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آرجے ڈی کے رویہ سے ناراضگی پائی جارہی ہے۔

سید ذاکر امام کا کہنا ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال تو مسلمان کریں گے اور بڑھ چڑھ کر کریں گے لیکن جہاں تک ان کے درمیان سیاسی ہلچل کا معاملہ ہے تو رمضان کے بعد بھی یہی سلسلہ گیا پارلیمانی حلقہ میں ہوگا کیونکہ یہ محفوظ نشست ہے اس لیے زیادہ کچھ بڑی برادریوں کے لیے دلچسپی نہیں ہے۔

دوسری اہم چیز کہ مسلمانوں نے آرجے ڈی کے حالات کو سمجھا ہے کہ یہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ انکی برادری کا بڑا ووٹ این ڈی اے میں جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا ووٹ یک طرفہ جاتا تھا لیکن اب سمجھنے اور سمجھ کر فیصلہ کرنے کا وقت ہے ۔ مسلم معاشرہ اس بار خاموشی کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کرے گا۔ انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے ذریعے امیدوار کھڑے کیے جانے کے سوال پر کہاکہ ویسے تو یہ سیاست ہے تاہم سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کچھ معمولی اثر بھی ممکن نہیں ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:پپو یادو نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی

واضح ہوکہ گیا سے ہم پارٹی کے امیدوار سابق وزیراعلی جیتن رام مانجھی ہیں جبکہ آرجے ڈی سے سابق ریاستی وزیر کمار سروجیت ہیں اور دونوں کی اپنی پکڑ ہے۔ لیکن اس میں کون بھاری پڑے گا یہ تو ریزلرٹ کے دن ہی پتہ چلے گا

لوک سبھا انتخابات کو لے کر گیا کے مسلمانوں میں عدم دلچسپی

گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا میں پارلیمانی انتخابات کو لے کر کوئی خاصی ہلچل مسلمانوں میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محفوظ سیٹ ایس سی ایس ٹی طبقہ کے لئے ہے ۔گزشتہ 25 برسوں سے مانجھی برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما ہی رکن پارلیمان بن رہے ہیں۔ گزشتہ25 برسوں سے مانجھی بمقابلہ مانجھی ہی ہوتا تھا لیکن اس بار اے آئی ایم آئی ایم اور آر جے ڈی نے پاسوان برادری سے امیدوار کھڑا کیا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ مانجھی بنام مانجھی نہیں بلکہ مانجھی بنام پاسوان ہوسکتا ہے۔

لیکن ان سب کے درمیان گیا میں مقابلہ این ڈی اے بنام انڈیا اتحاد ہی طے ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور ایجنڈوں کے بجائے پھر سے پرانی روایتوں کی طرح ایجنڈے طے کر دیے گئے ہیں۔ این ڈی اے میں ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کو گیا پارلیمانی سیٹ ملی ہے۔امیدوار سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی ہیں۔ مانجھی این ڈی اے میں بی جے پی کے کوٹے سے ہیں۔اس کا اثر بھی ان پر واضح طور پر دکھ رہا ہے۔

مانجھی نتیش کمار کے بنسبت بی جے پی کی قصیدہ خوانی زیادہ کررہے ہیں۔ مانجھی نے اپنے نام کا اعلان ہوتے ہی ہندوتوا کی سیاست کا بڑا پیغام دیاہے۔ کچھ ماہ قبل رام کے وجود سے انکار کرنے والے مانجھی کا دل اچانک بدل گیا۔اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے سے پہلے ایودھیا جاکر رام مندر کی زیارت کریں گے۔

اُنہوں نے ایسا کیا بھی ہے اور اطلاع کے مطابق 28 مارچ کو نامزدگی کا پرچہ داخل کریں گے۔ جبکہ پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں قسمت آزمانے کا موقع آر جے ڈی نے سابق ریاستی وزیر کمار سروجیت کو دیا ہے۔ سروجیت پاسوان برادری سے آتے ہیں، مقابلہ سخت تو تسلیم کیا جارہا ہے لیکن پلڑا کس کا بھاری ہے ۔ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ابھی تصویر اور واضح ہونی باقی ہے لیکن ان سب کے درمیان گیا پارلیمانی حلقہ میں مسلم ووٹروں کی خاموشی انڈیا اتحاد' آر جے ڈی' کو ستانے لگی ہے۔

انڈیا اتحاد میں چاروں سیٹوں پر آر جے ڈی نے اپنا امیدوار کھڑا کردیا ہے حالانکہ اورنگ آباد کانگریس کی روایتی نشست ہے لیکن آر جے ڈی نے یہاں جے ڈی یو کے ضلع صدر کو ہی امیدوار بنادیا۔ اورنگ آباد پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے اور یہاں سے مسلم رہنماؤں کی امیدواری کا مطالبہ تھا لیکن آر جے ڈی نے اس کو نظر انداز کر مسلم طبقہ سے بھی کم آبادی والی برادری ' کوشواہا ' برادری کے رہنما کو ٹکٹ دے دیا جسکی وجہ سے ناراضگی سامنے آگئی ہے حالانکہ آر جے ڈی کو توقع ہے کہ ناراضگی ختم ہو جائے گی لیکن پھر بھی مسلم ووٹروں کی خاموشی ان کے لیے پریشان کن ہے۔

گیا میں مسلمانوں کے درمیان سیاسی ہلچل نہیں ہونے کے سوال پر محمد دستگیر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ کئی وجہیں ہیں جن میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی رمضان ہے اور مسلم معاشرہ عبادتوں ریاضتوں اور ضروری کاموں تجارت وغیرہ میں مشغول ہے۔ گاوں، دیہاتوں میں ربیع فصل کی کٹائی کا بھی وقت ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں میں سیاسی ہلچل نہیں ہے جبکہ دوسری وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آرجے ڈی کے رویہ سے ناراضگی پائی جارہی ہے۔

سید ذاکر امام کا کہنا ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال تو مسلمان کریں گے اور بڑھ چڑھ کر کریں گے لیکن جہاں تک ان کے درمیان سیاسی ہلچل کا معاملہ ہے تو رمضان کے بعد بھی یہی سلسلہ گیا پارلیمانی حلقہ میں ہوگا کیونکہ یہ محفوظ نشست ہے اس لیے زیادہ کچھ بڑی برادریوں کے لیے دلچسپی نہیں ہے۔

دوسری اہم چیز کہ مسلمانوں نے آرجے ڈی کے حالات کو سمجھا ہے کہ یہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ انکی برادری کا بڑا ووٹ این ڈی اے میں جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا ووٹ یک طرفہ جاتا تھا لیکن اب سمجھنے اور سمجھ کر فیصلہ کرنے کا وقت ہے ۔ مسلم معاشرہ اس بار خاموشی کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کرے گا۔ انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے ذریعے امیدوار کھڑے کیے جانے کے سوال پر کہاکہ ویسے تو یہ سیاست ہے تاہم سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کچھ معمولی اثر بھی ممکن نہیں ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:پپو یادو نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی

واضح ہوکہ گیا سے ہم پارٹی کے امیدوار سابق وزیراعلی جیتن رام مانجھی ہیں جبکہ آرجے ڈی سے سابق ریاستی وزیر کمار سروجیت ہیں اور دونوں کی اپنی پکڑ ہے۔ لیکن اس میں کون بھاری پڑے گا یہ تو ریزلرٹ کے دن ہی پتہ چلے گا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.