ETV Bharat / state

جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد لیکن سیاسی نمائندگی نہ کے برابر - Muslims In Politics Of Jharkhand

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 29, 2024, 10:58 PM IST

Updated : Mar 30, 2024, 6:34 PM IST

JHARKHAND MUSLIM REPRESENTATION: جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے۔ تاہم سیاست میں ان کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد اس ریاست سے صرف ایک مسلمان ایم پی بنا ہے۔

جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد لیکن سیاسی نمائندگی نہ کے برابر
جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد لیکن سیاسی نمائندگی نہ کے برابر
جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد لیکن سیاسی نمائندگی نہ کے برابر

رانچی: اقلیتوں کو لے کر بھلے ہی سیاست ہوتی رہی ہو، لیکن جب حصہ داری اور نمائندگی کی بات آتی ہے تو یہ طبقہ جھارکھنڈ کی آبادی کے تناسب سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے جو کہ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدوار کھڑے کرنے کی بات آتی ہے تو کہیں نہ کہیں اس طبقے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے کانگریس کے فرقان انصاری واحد مسلم ایم پی ہیں۔ وہ 2004 میں گوڈا سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

  • لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی میں بھی کم نمائندگی

لوک سبھا کو بھول جائیں۔ ریاستی اسمبلی میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ ریاست میں 2005 میں ہوئے پہلے اسمبلی انتخابات میں صرف دو مسلمان ایم ایل اے بنے تھے۔ تاہم 2009 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد بڑھ کر 5 ہو گئی۔ ان پانچ میں سے دو کانگریس سے، دو جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے اور ایک بابولال مرانڈی کی پارٹی جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے تھے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد دوبارہ گھٹ کر دو پر آگئی۔ کانگریس کے عالمگیر عالم اور عرفان انصاری جیتنے میں کامیاب رہے باقی سبھی مسلم امیدوار ہار گئے۔ 2019 کی بات کریں تو چار مسلمان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

  • بی جے پی نے ایک بار پھر مسلمانوں سے دوری اختیار کی

لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے امیدواروں کا اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی ایک بار پھر مسلم امیدواروں سے دوری بناتی نظر آرہی ہے۔ جھارکھنڈ میں تصویر پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی نے ایک مسلم بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔

یہاں جھارکھنڈ مکتی مورچہ جیسی اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے اس موقف پر سوال اٹھاتے نہیں تھک رہی ہیں۔ جے ایم ایم کے ترجمان منوج پانڈے کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سرفراز احمد جیسے اقلیتی لیڈر کو راجیہ سبھا بھیجنے کا کام ہم نے کیا، لیکن جو پارٹی سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بات کرتی ہے، وہ مسلمانوں کو کیوں بھول رہی ہے؟

یہاں، مخالفین کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، بی جے پی-اے جے ایس یو لیڈروں نے کہا کہ صرف الیکشن میں کھڑے ہونے سے مسلمان ترقی نہیں کریں گے۔ الیکشن جیتنے والوں نے کیا کیا، سب جانتے ہیں۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدر انور حیات کا کہنا ہے کہ مودی جی کی قیادت میں ملک میں مسلمانوں نے کی جتنی ترقی کی، کسی اور دور حکومت میں ان کی اتنی ترقی نہیں ہوئی۔ صرف امیدوار کھڑا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اے جے ایس یو کے ایم ایل اے لمبودر مہتو کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو پارٹی کی طرف سے مناسب نمائندگی دی گئی ہے۔ مستقبل میں مزید موقع دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: نفرت اور تشدد پھیلانے والے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف کھڑے ہونا ہمارا فرض: راہل گاندھی
ممتا نے ہیمنت سورین کی گرفتاری کی سخت مذمت کی

جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد لیکن سیاسی نمائندگی نہ کے برابر

رانچی: اقلیتوں کو لے کر بھلے ہی سیاست ہوتی رہی ہو، لیکن جب حصہ داری اور نمائندگی کی بات آتی ہے تو یہ طبقہ جھارکھنڈ کی آبادی کے تناسب سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے جو کہ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدوار کھڑے کرنے کی بات آتی ہے تو کہیں نہ کہیں اس طبقے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے کانگریس کے فرقان انصاری واحد مسلم ایم پی ہیں۔ وہ 2004 میں گوڈا سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

  • لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی میں بھی کم نمائندگی

لوک سبھا کو بھول جائیں۔ ریاستی اسمبلی میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ ریاست میں 2005 میں ہوئے پہلے اسمبلی انتخابات میں صرف دو مسلمان ایم ایل اے بنے تھے۔ تاہم 2009 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد بڑھ کر 5 ہو گئی۔ ان پانچ میں سے دو کانگریس سے، دو جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے اور ایک بابولال مرانڈی کی پارٹی جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے تھے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد دوبارہ گھٹ کر دو پر آگئی۔ کانگریس کے عالمگیر عالم اور عرفان انصاری جیتنے میں کامیاب رہے باقی سبھی مسلم امیدوار ہار گئے۔ 2019 کی بات کریں تو چار مسلمان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

  • بی جے پی نے ایک بار پھر مسلمانوں سے دوری اختیار کی

لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے امیدواروں کا اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی ایک بار پھر مسلم امیدواروں سے دوری بناتی نظر آرہی ہے۔ جھارکھنڈ میں تصویر پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی نے ایک مسلم بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔

یہاں جھارکھنڈ مکتی مورچہ جیسی اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے اس موقف پر سوال اٹھاتے نہیں تھک رہی ہیں۔ جے ایم ایم کے ترجمان منوج پانڈے کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سرفراز احمد جیسے اقلیتی لیڈر کو راجیہ سبھا بھیجنے کا کام ہم نے کیا، لیکن جو پارٹی سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بات کرتی ہے، وہ مسلمانوں کو کیوں بھول رہی ہے؟

یہاں، مخالفین کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، بی جے پی-اے جے ایس یو لیڈروں نے کہا کہ صرف الیکشن میں کھڑے ہونے سے مسلمان ترقی نہیں کریں گے۔ الیکشن جیتنے والوں نے کیا کیا، سب جانتے ہیں۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدر انور حیات کا کہنا ہے کہ مودی جی کی قیادت میں ملک میں مسلمانوں نے کی جتنی ترقی کی، کسی اور دور حکومت میں ان کی اتنی ترقی نہیں ہوئی۔ صرف امیدوار کھڑا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اے جے ایس یو کے ایم ایل اے لمبودر مہتو کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو پارٹی کی طرف سے مناسب نمائندگی دی گئی ہے۔ مستقبل میں مزید موقع دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: نفرت اور تشدد پھیلانے والے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف کھڑے ہونا ہمارا فرض: راہل گاندھی
ممتا نے ہیمنت سورین کی گرفتاری کی سخت مذمت کی

Last Updated : Mar 30, 2024, 6:34 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.