دہلی: ریاست اتر پردیش میں مدرسہ ایکٹ 2004 پر الہ اباد ہائی کورٹ نے مساعت کے دوران اسے غیر ائینی قرار دے دیا تھا جس کے بعد سے اترپردیش میں مدارس کے ذمہ داران نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے گذشتہ روز سماعت کے دوران الہ آباد کے فیصلے پر عبوری روک لگانے کا حکم جاری کیا ہے اس معاملے میں ایندہ سماعت جولائی کی جانی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد مدارس کے ذمہ داران نے راحت کی سانس لی ہے اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قومی ترجمان سید قاسم رسول الیاس سے بات کی جس میں انہوں نے کہا کہ الہ اباد ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ 2004 کا غلط انٹرپریٹیشن کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے اسٹے لگا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔
نمائندے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ مدرسہ ایکٹ 2004 میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ مدارس میں دینی تعلیم دی جائے گی بلکہ اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہاں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جائے گی اس میں دینی تعلیم بھی اس تعلیم کا ایک جز ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی ریاستی حکومت مدارس کو مالی تعاون دے رہی ہے تو یہ سیکولرزم کے منافی کہاں سے ہو گیا وہی ریاستی حکومت کمبھ کے میلے میں مالی تعاون دیتی تو وہ سیکولرازم کے منافی نہیں ہے، یہی ریاستی حکومت کانوڑ یاتریوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برساتی ہے، اور حال ہی میں ایودھیا میں رام مندر کے تقریب میں عالی شان جشن مناتی ہے جس میں ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی اپنے لاو لشکر کے ساتھ شامل ہوتا ہے وہ تو سیکیولرزم کے منافی نہیں ہے لیکن مدارس کو تھوڑی سی امداد دینا سیکیولرزم کے منافی مانا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ مدارس ایکٹ 2004 آر ٹی ای کے خلاف ہے یہ سراسر غلط ہے، کیونکہ تعلیم چاہے دینی ہو یا ماڈرن تعلیم تو تعلیم ہی ہے اس کا مقصد عوام کو مہذب بنانا ہوتا خواہ چاہے کوئی بھی تعلیم ہو۔ وہیں ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کا کہنا تھا کہ شاید یہ انتقامی کاروائی تھی آلہ آباد ہائی کورٹ کی انہوں نے شاید اس معاملے پر صحیح سے غور نہیں کیا لیکن اب سپریم کورٹ اس معاملے میں کوئی فیصلہ لینے سے قبل اسے غور سے پڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کو کمزور کرنے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ نے کوشش کی تھی لیکن ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ بھارتیہ آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل 30 کی روح سے سمجھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ سنائے گا۔
مدرسہ ایکٹ میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ اس میں دینی تعلیم دی جاتی ہے: سید قاسم رسول الیاس - UP Madrasa Act Case
مدرسہ ایکٹ 2004 میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ مدارس میں دینی تعلیم دی جائے گی بلکہ اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہاں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جائے گی اس میں دینی تعلیم بھی اس تعلیم کا ایک جز ہے۔
Published : Apr 6, 2024, 8:54 PM IST
دہلی: ریاست اتر پردیش میں مدرسہ ایکٹ 2004 پر الہ اباد ہائی کورٹ نے مساعت کے دوران اسے غیر ائینی قرار دے دیا تھا جس کے بعد سے اترپردیش میں مدارس کے ذمہ داران نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے گذشتہ روز سماعت کے دوران الہ آباد کے فیصلے پر عبوری روک لگانے کا حکم جاری کیا ہے اس معاملے میں ایندہ سماعت جولائی کی جانی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد مدارس کے ذمہ داران نے راحت کی سانس لی ہے اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قومی ترجمان سید قاسم رسول الیاس سے بات کی جس میں انہوں نے کہا کہ الہ اباد ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ 2004 کا غلط انٹرپریٹیشن کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے اسٹے لگا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔
نمائندے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ مدرسہ ایکٹ 2004 میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ مدارس میں دینی تعلیم دی جائے گی بلکہ اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہاں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جائے گی اس میں دینی تعلیم بھی اس تعلیم کا ایک جز ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی ریاستی حکومت مدارس کو مالی تعاون دے رہی ہے تو یہ سیکولرزم کے منافی کہاں سے ہو گیا وہی ریاستی حکومت کمبھ کے میلے میں مالی تعاون دیتی تو وہ سیکولرازم کے منافی نہیں ہے، یہی ریاستی حکومت کانوڑ یاتریوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برساتی ہے، اور حال ہی میں ایودھیا میں رام مندر کے تقریب میں عالی شان جشن مناتی ہے جس میں ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی اپنے لاو لشکر کے ساتھ شامل ہوتا ہے وہ تو سیکیولرزم کے منافی نہیں ہے لیکن مدارس کو تھوڑی سی امداد دینا سیکیولرزم کے منافی مانا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ مدارس ایکٹ 2004 آر ٹی ای کے خلاف ہے یہ سراسر غلط ہے، کیونکہ تعلیم چاہے دینی ہو یا ماڈرن تعلیم تو تعلیم ہی ہے اس کا مقصد عوام کو مہذب بنانا ہوتا خواہ چاہے کوئی بھی تعلیم ہو۔ وہیں ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کا کہنا تھا کہ شاید یہ انتقامی کاروائی تھی آلہ آباد ہائی کورٹ کی انہوں نے شاید اس معاملے پر صحیح سے غور نہیں کیا لیکن اب سپریم کورٹ اس معاملے میں کوئی فیصلہ لینے سے قبل اسے غور سے پڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کو کمزور کرنے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ نے کوشش کی تھی لیکن ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ بھارتیہ آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل 30 کی روح سے سمجھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ سنائے گا۔