ETV Bharat / state

وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں:مولانا خالد رشید فرنگی محلی - Waqf Amendment Act

مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہاکہ وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں 1995 میں جو قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں وہ وقف کے لیے کافی ہیں۔

وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں:مولانا خالد رشید فرنگی محلی
وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں:مولانا خالد رشید فرنگی محلی (etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 10, 2024, 8:44 PM IST

لکھنو: گزشتہ روز پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ پیش کیا گیا جس پر حزب اختلاف کی سیاسی رہنماؤں نے زبردست مخالفت کی وہیں مرکزی وزیر نے بھی اس کا جواب دیا۔اتر پردیش میں بھی اس معاملے کو لے کر کے سماجی، ملی رہنماؤں نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں:مولانا خالد رشید فرنگی محلی (etv bharat)

انہوں نے کہا کہ اس وقت میڈیا کے ذریعے ایک غلط افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ وقف ائیں کے خلاف ہے اور کسی بھی املاک کو وقف بورڈ میں درج کرا دیا جاتا ہے وقف بورڈ کے لوگ اس پر قابض ہوتے ہیں یہ سراسر غلط ہے۔ وقف بورڈ ائین کے بالکل خلاف نہیں ہے۔ آئین کے ارٹیکلز کے مطابق ہی وقف ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے۔ بورڈ میں املاک کے رجسٹریشن کا مکمل مرحلہ وار کاروائی ہوتی ہے اس کے تحت ہی رجسٹریشن کیا جاتا ہے تمام تر دستاویزات دیکھ کر اس کے علاوہ موقع واردات کا جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد ہی کسی وقف کا رجسٹریشن ہوتا ہے۔

اتر پردیش کے سابق کارگزار وزیراعلی ڈاکٹر عمار رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے اس پر وزیراعظم کو تمام مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کرنا چاہیے تاکہ ان کا اعتماد بحال رہے۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے حساس مسائل میں مذہبی علماء فلاحی اور دینی کارکنان سے بھی بات چیت کی جائے تاکہ کسی قسم کی غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا ہم استقبال کرتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ میں غیر مسلم کے شامل ہونے کا راستہ کھول دیا گیا ہے لیکن میں یہ بھی مطالبہ کر رہا ہوں کہ جتنی بھی دیگر مذاہب کی کمیٹیاں ہیں اس میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے کیونکہ سب مل کر کے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے تو اس کا مزہ الگ ہے۔

آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ وقف کی بہتری کے لیے اگر ایکٹ میں ترمیم کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہیں لیکن اگر وقف کو نقصان پہنچتا ہے یا اس میں بے جا عمل دخل کیا جاتا ہے تو آل نڈیا شیعہ پرسنل بورڈ اس کی سخت مخالفت بھی کرے گا۔ احتجاج بھی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وقف املاک میں اور وقت بورڈ میں کمیاں تو ہیں حکومت کو اسے درست کرنا چاہیے وقف نمبر ڈیلیٹ کیے جا رہے ہیں وقف کو املاک میں خرد برد کیا جا رہا ہے وقف مافیاؤں پہ کاروائی ہونی چاہیے اور اس میں سدھار ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات کرے گا: مسلم پرسنل لا بورڈ -

وقف ترمیمی بل 24 پر سماجی کارکنان یہ بھی اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت کی نظر بڑی درگاہوں پر ہے وہ بایں طور کی حکومت نے غیر مسلموں کو وقف کمیٹیوں میں داخل کرنے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کیا ہے۔اس کاراست اثر یہ ہوگا کہ غیر مسلموں کو درگاہ کمیٹیوں میں شامل کیا جائے گا۔وہاں کے عربوں کی امدنی پر بھی حکومت کی نظر ہوگی اس میں خاص طور پہ اجمیر میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی موجود ہے۔ ممبئی میں حاجی علی اتر پردیش میں دیواں شریف، کھچھوچھا اور بہرائچ کے علاوہ ملک بھر میں سینکڑوں ایسے درگاہ ہیں جہاں کروڑوں کی آمدنی ہے ۔وہیں ایکٹ میں ترمیم سے وقف املاک کی رجسٹریشن میں بھی دشواریاں پیش ائیں گی کیونکہ ڈی ایم کو نگراں کے طور پہ منتخب کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ڈی ایم تک سبھی کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ لہذا ڈی ایم کو اختیارات دے کر وقف بورڈکے اختیارات کو کم کرنے سے بھی وقف املاک پر اثر پڑے گا۔

لکھنو: گزشتہ روز پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ پیش کیا گیا جس پر حزب اختلاف کی سیاسی رہنماؤں نے زبردست مخالفت کی وہیں مرکزی وزیر نے بھی اس کا جواب دیا۔اتر پردیش میں بھی اس معاملے کو لے کر کے سماجی، ملی رہنماؤں نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں:مولانا خالد رشید فرنگی محلی (etv bharat)

انہوں نے کہا کہ اس وقت میڈیا کے ذریعے ایک غلط افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ وقف ائیں کے خلاف ہے اور کسی بھی املاک کو وقف بورڈ میں درج کرا دیا جاتا ہے وقف بورڈ کے لوگ اس پر قابض ہوتے ہیں یہ سراسر غلط ہے۔ وقف بورڈ ائین کے بالکل خلاف نہیں ہے۔ آئین کے ارٹیکلز کے مطابق ہی وقف ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے۔ بورڈ میں املاک کے رجسٹریشن کا مکمل مرحلہ وار کاروائی ہوتی ہے اس کے تحت ہی رجسٹریشن کیا جاتا ہے تمام تر دستاویزات دیکھ کر اس کے علاوہ موقع واردات کا جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد ہی کسی وقف کا رجسٹریشن ہوتا ہے۔

اتر پردیش کے سابق کارگزار وزیراعلی ڈاکٹر عمار رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے اس پر وزیراعظم کو تمام مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کرنا چاہیے تاکہ ان کا اعتماد بحال رہے۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے حساس مسائل میں مذہبی علماء فلاحی اور دینی کارکنان سے بھی بات چیت کی جائے تاکہ کسی قسم کی غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا ہم استقبال کرتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ میں غیر مسلم کے شامل ہونے کا راستہ کھول دیا گیا ہے لیکن میں یہ بھی مطالبہ کر رہا ہوں کہ جتنی بھی دیگر مذاہب کی کمیٹیاں ہیں اس میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے کیونکہ سب مل کر کے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے تو اس کا مزہ الگ ہے۔

آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ وقف کی بہتری کے لیے اگر ایکٹ میں ترمیم کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہیں لیکن اگر وقف کو نقصان پہنچتا ہے یا اس میں بے جا عمل دخل کیا جاتا ہے تو آل نڈیا شیعہ پرسنل بورڈ اس کی سخت مخالفت بھی کرے گا۔ احتجاج بھی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وقف املاک میں اور وقت بورڈ میں کمیاں تو ہیں حکومت کو اسے درست کرنا چاہیے وقف نمبر ڈیلیٹ کیے جا رہے ہیں وقف کو املاک میں خرد برد کیا جا رہا ہے وقف مافیاؤں پہ کاروائی ہونی چاہیے اور اس میں سدھار ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات کرے گا: مسلم پرسنل لا بورڈ -

وقف ترمیمی بل 24 پر سماجی کارکنان یہ بھی اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت کی نظر بڑی درگاہوں پر ہے وہ بایں طور کی حکومت نے غیر مسلموں کو وقف کمیٹیوں میں داخل کرنے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کیا ہے۔اس کاراست اثر یہ ہوگا کہ غیر مسلموں کو درگاہ کمیٹیوں میں شامل کیا جائے گا۔وہاں کے عربوں کی امدنی پر بھی حکومت کی نظر ہوگی اس میں خاص طور پہ اجمیر میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی موجود ہے۔ ممبئی میں حاجی علی اتر پردیش میں دیواں شریف، کھچھوچھا اور بہرائچ کے علاوہ ملک بھر میں سینکڑوں ایسے درگاہ ہیں جہاں کروڑوں کی آمدنی ہے ۔وہیں ایکٹ میں ترمیم سے وقف املاک کی رجسٹریشن میں بھی دشواریاں پیش ائیں گی کیونکہ ڈی ایم کو نگراں کے طور پہ منتخب کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ڈی ایم تک سبھی کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ لہذا ڈی ایم کو اختیارات دے کر وقف بورڈکے اختیارات کو کم کرنے سے بھی وقف املاک پر اثر پڑے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.