گیا:ریاست بہار ے ضلع گیا میں پہلے مرحلے میں پارلیمانی انتخابات کے تحت ووٹنگ ہوگی۔ یہاں این ڈی اے بنام انڈیا اتحاد مقابلہ ہوگا۔اس میں مسلم ووٹروں کی اکثریت کا رجحان ایک اتحاد کی طرف واضح ہے۔ یہاں مسلم ووٹروں کے درمیان پارٹی اتحاد کے علاوہ امیدوار کی قربت بھی اہم تسلیم کی جارہی ہے۔
این ڈی اتحاد کی طرف سے ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کے قومی سرپرست و سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی اُمیدوار ہیں جبکہ انڈیا اتحاد سے آر جے ڈی کے اُمیدوار سابق ریاستی وزیر کمار سر وجيت ہیں، بے روزگاری مہنگائی انتخابی مسائل کے ساتھ مسلم ووٹروں کے درمیان قومی سطح پر ان کے مسائل اور حالات و معاملات بھی پیش نظر ہیں۔
البتہ بہار کے مسلم ووٹروں کے درمیان آر جے ڈی کے تئیں ناراضگی بھی ہے اور اس ناراضگی کی وجہ سابق رکن پارلیمنٹ مرحوم شہاب الدین کے کنبه کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑی وجہ ہے ، جبکہ آر جے ڈی کی جانب سے دوہی مسلم رہنماؤں کو ٹکٹ دینا بھی ایک وجہ ہے۔ باوجود کہ مسلم ووٹر کشمکش اور مایوسی کے بعد بھی مرکزی حکومت سے جڑے معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈیا اتحاد کے حق میں ووٹنگ کرنے کو راضی ہیں۔
مقامی وارڈ کونسلر نیئر احمد کہتے ہیں کہ جہاں ایک جگہ پر برتن ہوتے ہیں تو اس سے آواز آتی ہے۔ ناراضگی تو یقینی طور پر ہے تاہم حالات کے مدنظر انڈیا اتحاد پر ہی اعتماد کیا جارہاہے اور گیا پارلیمانی حلقے میں دیکھیں تو یہاں امیدوار کے ذاتی تعلقات ہیں خاص کر آرجے ڈی کے امیدوارکمار سروجیت کا مسلمانوں سے اچھا رابطہ ہے۔ اس وجہ سے اکثریت لوگوں کا اعتماد ان پر ہوگا۔
والد تھے بے حد قریب
نیئر احمد کہتے ہیں کمار سروجیت کے والد آنجہانی راجیش کمار سے مسلمانوں کے اچھے مراسم تھے۔ انہیں گیا میں کافی پسند کیا جاتا تھا اور کمار سروجیت کو انکے والد کی خدمات کا بھی فائدہ مل رہاہے۔ جو راجیش کمار کو دیکھ چکے ہیں وہ آج بھی انکی ستائش کرتے ہیں اور اپنے تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔ بوڑھے بزرگوں کا رجحان زیادہ ہے اور کہا یہ بھی جارہاہے کہ والد کی طرح کمار سروجیت بھی غریبوں کے دکھ درد میں کھڑے ہوتے ہیں۔
مانجھی ہیں سرپرست
این ڈی اے کے امیدوار جیتن رام مانجھی کے بھی مسلمانوں کے درمیان اچھے مراسم ہیں۔ نیئر احمد کہتے ہیں کہ مانجھی کو سرپرست کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مانجھی جب بہار کے وزیر اعلی تھے تو مسلمانوں کے فلاح کے لیے کئی اہم فیصلے لیے تھے لیکن انکے ہٹتے ہی این ڈی اے کی حکومت نے ان فیصلوں رد کردیا۔ بعد میں پھر مانجھی این ڈی اے کی حکومت میں رہے لیکن انہوں نے ان منصوبوں کو دوبارہ منظور نہیں کراسکے جبکہ اور کئی فیصلے جو رد کیے گئے تھے اسکو این ڈی اے کی حکومت نےمنظور کردیا تھا۔ اسلیے مانجھی جیت کر بھی مسلمانوں کے کاموں کو پورا نہیں کراسکیں گے ۔
گزشتہ پانچ برسوں میں نہیں ہوا کام
نیئر احمد کہتے ہیں کہ گیا شہر میں کل 53 وارڈ ہیں۔ اس میں کچھ مسلم اکثریتی وارڈ بھی ہیں لیکن کسی جگہ پر یہاں کے ایم پی کے ذریعے کوئی کام نہیں ہواہے جبکہ ایک ایم پی چاہے تو مرکز کی حکومت سے کئی کام کروا سکتا ہے۔ دلچسپی نہیں تھی ان رہنماوں کے درمیان۔ لیکن اب بہتر ڈھنگ سے کام ہوگا اگر انڈیا اتحاد کا امیدوار جیت درج کرتا ہے تو اور سبھی فرقے کی ترقی ہوگی .