نئی دہلی: قومی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع مکتبہ جامعہ کو گزشتہ سال ستمبر ماہ میں بند کر دیا گیا تھا جب مکتبہ جامعہ سے محبت رکھنے والے افراد نے سوشل میڈیا پر اواز بلند کی تو پھر مکتبہ جامعہ کو دوبارہ کھولا گیا لیکن اب گزشتہ 22 فروری سے جامع مسجد پر واقع مکتبہ جامعہ بند ہے۔
اردو بازار میں واقع مکتبہ میں جامعہ گزشتہ 40 برسوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے۔ علی خسرو زیدی نے گزشتہ برس بھی یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس ادارے کو بند کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس کے پیچھے انہوں نے وجہ بتائی تھی کہ نہ تو انہیں کتابیں دستیاب کرائی جا رہی ہیں۔ نہ ہی ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں انہیں بھی کام پر جانے سے منع کر دیا گیا تھا، آخر میں جب ہنگامہ ہوا تو انہیں راضی کرکے پھر سے مکتبہ جامعہ میں اپنی خدمات انجام دینے کے لیے تیار کیا گیا۔
اس پورے معاملہ میں معروف صحافی معصوم مراد آبادی نے پہلے بھی ایک مہم چلائی تھی جس کے عصر کے بعد مکتبہ جامعہ کو پھر سے کھولا گیا تھا۔ وہیں اس بار بھی انہوں نے سوشل میڈیا پر اس بات کی جانکاری دی ہے کہ مکتبہ جامعہ بند کردیا گیا ہے انہوں نے اپنی پوسٹ میں مکتبہ جامعہ کی تاریخ اور اس کے سنہرے دور کی بھی عکاسی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چاندنی چوک سے لوک سبھا انتخابات کے امیدوار کے لیے عوام کی کیا ہے رائے؟ - Lok Sabha Election 2024
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے معصوم مراد آبادی سے فون کے ذریعے رابطہ کیا اور معلوم کیا کہ انہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ مکتبہ جامعہ کو بند کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔انہوں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے مکتبہ جامعہ کے دروازے بند پڑے ہیں۔ اب مکتبہ جامعہ کے سامنے کباب کی دکان لگائی جاتی ہے چونکہ اب اردو بازار کتابوں کی جگہ کبابوں کی فروخت میں اول نمبر پر ہے۔ ایسے میں یہی اندیشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ شاید مکتبہ جامعہ بھی ائندہ دنوں میں کتابوں کی جگہ کباب فروخت کرتا نظر آئے گا۔