اندور: ہندوستان کی آزادی کے بعد سیکولر ائین نافذ ہوا وہیں اقلیتی طبقے کی فلا و بہدودی کے لیے وقف کی گئی جائیداد کے رکھ رکاؤ اور اس کے جائیداد تحفظ کے لیے 1954 میں وقف ایکٹ بنایا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت جائیداد کا مینجمنٹ اور اس سے ہونے والے امدانی کا سے اقلیتی طبقے کے لیے فلاحی کاموں کو انجام دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔
وہیں یکم نومبر 1956 کو ریاست مدھیہ پردیش کا قیام عمل میں آیا اور صوبے میں1961، وقف بورڈ کی تشکیل کی گئی واضح رہے کہ صوبے میں 52 اضلاع ہیں۔ان سبھی اضلاع میں 14986 اسٹیٹ ہیں جس میں تقریبا دو لاکھ سے زیادہ جائیداد موجود ہیں۔ان سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے جس کے تین حصے ہوتے ہیں۔اس میں 93 فیصد مینجمنٹ کمیٹی خرچ کرتی ہے۔ وہیں سات فیصد میں چھ فیصد ریاستی بورڈ کو جاتا ہے تو ایک فیصد سینٹر بورڈ کو جاتا ہے لیکن اب صوبے کہ وقف بورڈ نے کروڑوں روپے کی آمدنی کا 50 فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین سنور پٹیل نے بتایا کہ مدھیہ پردیش وقف پورٹ کے تحت 14986 اسٹیٹ ہیں اگر ہم ان کی گنتی کریں تو 2 لاکھ سے زیادہ جائیداد ہوں گی لیکن جس طرح سے وقف املاک کو لوٹا گیا ہے۔ خرد برد کیا گیا ہے۔ ان پر ناجائز قبضے کیے گئے ہیں اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہم سے قبل جن لوگوں کے ہاتھ میں بور تھا۔
انہوں نے کہاکہ ان کی نیت میں کھوٹ تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر ریاستی حکومت سے سالانہ تین کروڑ روپے نہ ملی تو ہم ملازموں کی تنخواہ نہیں بانٹ سکتے۔ سوال یہ اتنا بڑا بورڈ جس لاکھوں جائیداد اس کے باوجود ریاستی حکومت سے آمدد لینا پڑتی ہے لیکن اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت کا بورڈ ہے جو وقف بورڈ جائیداد سے ہونے والی آمدنی وقفیت کی منشا کے مطابق صحیح طریقے سے استعمال کیسے کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:مدھیہ پردیش: مولا کمال مسجد کا اے ایس آئی سروے شروع - MAULA MASJID SURVEY
ان کا کہنا ہے کہ اس پر عمل کرے گا وہی خاص طور پر ہم نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت ملک کی تعمیر کے لیے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ہمارے بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم پر آمدنی کا 50 فیصد خرچ کیا جائے گا۔