ETV Bharat / state

ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے میں ووٹنگ کا عمل مکمل، اس اہم سیٹ سے متعلق جانیے تمام حقائق - Domariyaganj Lok Sabha Seat - DOMARIYAGANJ LOK SABHA SEAT

لوک سبھا انتخابات کے چھٹے مرحلے کے تحت ملک کی 58 سیٹوں پر 25 مئی کو ووٹ ڈالے گئے۔ اس میں اترپردیش کا ڈومریاگنج لوک سبھا حلقہ بھی شامل ہے۔ اس انتخابی حلقے کی موجودہ صورت حال، حلقے کی آبادی، ووٹروں کی تعداد اور اب تک کی انتخابی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ Lok Sabha Election 6th Phase Polling

ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ سے متعلق تمام حقائق جانیے
ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ سے متعلق تمام حقائق جانیے (Photo: Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 24, 2024, 7:29 PM IST

سرحدی ضلع سدھارتھ نگر کی لوک سبھا سیٹ ڈومریاگنج میں چھٹے مرحلے کے تحت ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ اب امیدواروں کی قسمت کا پٹارہ چار مئی کو کھلے گا۔ آئیے اس ہاٹ سیٹ سے متعلق تمام تر بنیادی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • ڈومریاگنج سیٹ پر چار دہائی میں سب سے کم امیدوار

ڈومریاگنج میں بی جے پی کی طرف سے جگدمبیکا پال، سماج وادی پارٹی کی طرف سے بھیشما شنکر 'کشل' تیواری، بی ایس پی کی طرف سے محمد ندیم، آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) کی جانب سے امر سنگھ چودھری، پیس پارٹی کے نوشاد اعظم اور آزاد امیدوار کے طور پر کرن دیوی اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ 1980 کے بعد سے ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس لوک سبھا حلقے سے اتنے کم امیدوار میدان میں ہیں، ورنہ پہلے یہاں امیدواروں کی تعداد چھ سے زیادہ رہی ہے۔

  • ڈومریاگنج حلقے سے متعلق بنیادی حقائق

ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ پورے سدھارتھ نگر ضلع پر مشتمل ہے۔ اس لوک سبھا سیٹ میں پانچ اسمبلی حلقے آتے ہیں جن میں ڈومریاگنج، اٹوا، بانسی، کپل وستو اور شہرت گڑھ شامل ہیں۔ یہ حلقہ بستی منڈل (ڈویژن) میں آتا ہے جس میں بستی اور سنت کبیرنگر بھی شامل ہیں۔ ان تینوں حلقوں پر 25 مئی کو ووٹ ڈالے گئے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق سدھارتھ نگر ضلع/ڈومریاگنج سیٹ کی مجموعی آبادی 2,559,297 ہے جس میں مردوں کی تعداد 1,295,095 جب کہ خواتین کی تعداد 1,264,202 ہے۔ اس سیٹ پر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں 976 خواتین آتی ہیں۔

  • ووٹروں کی مجموعی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد 19,61,845 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 10,45,086 ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 9,16,618 ہے۔ اس کے علاوہ اس حلقے میں 141 خواجہ سرا ووٹرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔

  • حلقے میں ہندو-مسلم آبادی

مذاہب کی بنیاد پر اعداد و شمار دیکھا جائے تو ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے میں ہندوؤں کی آبادی 69.93 % ہے جب کہ مسلم آبادی 29.23 % ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اس حلقے میں 1,789,704 ہندو اور 748,073 مسلمان بستے ہیں۔ باقی دیگر تمام مذاہب کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے کا نقشہ
ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے کا نقشہ (Photo: Proneta)
  • پچھلے لوک سبھا الیکشن کی کہانی

پچھلے لوک سبھا الیکشن 2019 میں ڈومریاگنج حلقے میں ووٹر ٹرن آوٹ 49.96 فیصد تھا جس میں 9,85,330 ووٹ پڑے تھے۔ اس میں بی جے پی کے جگدمبیکا پال کو 492,253 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہے بی ایس پی کے آفتاب عالم کو 3,86,932 ووٹ ملے تھے۔ جگدمبیکا پال کے مقابلے میں آفتاب عالم دس فیصد ووٹوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جگدمبیکا پال گذشتہ تین لوک سبھا انتخابات سے اس سیٹ پر مسلسل جیت درج کر رہے ہیں۔

  • ڈومریاگنج سے قسمت آزمانے والے قدآور رہنما

پہلے اس لوک سبھا حلقے کو بستی مغرب (Basti West) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اترپردیش کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ کو ہمیشہ سے ایک اہم نشست کے طور پر شمار کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سیٹ ملک کی آزادی کے بعد سے قدآور اور سینئر رہنماؤں کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔ ایسے سرکردہ رہنما جو یہاں کے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کر چکے ہیں ان میں قاضی جلیل عباسی، سیما مصطفی، محسنہ قدوائی، نارائن سوروپ شرما، مادھو پرساد ترپاٹھی، برج بھوشن ترپاٹھی اور ماتا پرساد پانڈے کا نام قابل ذکر ہے۔

قاضی جلیل عباسی ایک مجاہد آزادی تھے۔ انہوں نے 1980 اور 1984 میں ڈومریا گنج لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کی تھی۔ ان کا شمار ملک کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہیں ایشین ایج کی سابقہ پولیٹیکل ایڈیٹر صحافی سیما مصطفی نے ڈومریاگنج لوک سبھا سے دو بار الیکشن لڑا تھا۔ تاہم، وہ دونوں بار ہار گئی تھیں۔

اس کے علاوہ یہاں سے الیکشن لڑنے والوں میں ایک اہم نام محسنہ قدوائی کا بھی ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں مرکزی وزیر تھیں۔ انہوں نے 1991 اور 1996 میں ڈومریا گنج لوک سبھا سے الیکشن لڑا تھا، حالانکہ وہ ہار گئی تھیں۔

وہیں اس سیٹ سے قسمت آزمانے والے بیرسٹر نارائن سوروپ شرما آکسفورڈ یونیورسٹی کے ممبر تھے اور 1943 میں بھارتیہ جن سنگھ کے سرگرم رکن رہے۔ وہیں مادھو پرساد ترپاٹھی 1977 میں بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر ڈمریا گنج لوک سبھا سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سماج وادی پارٹی کے قومی نائب صدر رہے برج بھوشن ترپاٹھی نے 1989 کے لوک سبھا انتخابات میں یہاں سے کانگریس کے قاضی جلیل عباسی کو شکست دی تھی۔ اس وقت وہ جنتا دل کے امیدوار تھے۔

اسی کے ساتھ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں دو بار اسمبلی اسپیکر رہ چکے ماتا پرساد پانڈے 2009 اور 2014 کے انتخابات بھی یہاں سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن انہیں دونوں بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

  • ڈومریاگنج سے اب تک منتخب ہوئے ارکان پارلیمنٹ

1952: کیشو دیو مالویہ

1957: رام سنگر لال

1962: کرپا شنگر

1967: نارائن سوروپ شرما

1971: کیشو دیو مالویہ

1980-1984: قاضی جلیل عباسی

1989: برج بھوشن تیواری

1991: رام پال سنگھ

1996: برج بھوشن تیواری

1998-1999: رام پال سنگھ

2004: محمد مقیم

2009-2014-2019: جگدمبیکا پال

سرحدی ضلع سدھارتھ نگر کی لوک سبھا سیٹ ڈومریاگنج میں چھٹے مرحلے کے تحت ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ اب امیدواروں کی قسمت کا پٹارہ چار مئی کو کھلے گا۔ آئیے اس ہاٹ سیٹ سے متعلق تمام تر بنیادی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • ڈومریاگنج سیٹ پر چار دہائی میں سب سے کم امیدوار

ڈومریاگنج میں بی جے پی کی طرف سے جگدمبیکا پال، سماج وادی پارٹی کی طرف سے بھیشما شنکر 'کشل' تیواری، بی ایس پی کی طرف سے محمد ندیم، آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) کی جانب سے امر سنگھ چودھری، پیس پارٹی کے نوشاد اعظم اور آزاد امیدوار کے طور پر کرن دیوی اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ 1980 کے بعد سے ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس لوک سبھا حلقے سے اتنے کم امیدوار میدان میں ہیں، ورنہ پہلے یہاں امیدواروں کی تعداد چھ سے زیادہ رہی ہے۔

  • ڈومریاگنج حلقے سے متعلق بنیادی حقائق

ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ پورے سدھارتھ نگر ضلع پر مشتمل ہے۔ اس لوک سبھا سیٹ میں پانچ اسمبلی حلقے آتے ہیں جن میں ڈومریاگنج، اٹوا، بانسی، کپل وستو اور شہرت گڑھ شامل ہیں۔ یہ حلقہ بستی منڈل (ڈویژن) میں آتا ہے جس میں بستی اور سنت کبیرنگر بھی شامل ہیں۔ ان تینوں حلقوں پر 25 مئی کو ووٹ ڈالے گئے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق سدھارتھ نگر ضلع/ڈومریاگنج سیٹ کی مجموعی آبادی 2,559,297 ہے جس میں مردوں کی تعداد 1,295,095 جب کہ خواتین کی تعداد 1,264,202 ہے۔ اس سیٹ پر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں 976 خواتین آتی ہیں۔

  • ووٹروں کی مجموعی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد 19,61,845 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 10,45,086 ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 9,16,618 ہے۔ اس کے علاوہ اس حلقے میں 141 خواجہ سرا ووٹرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔

  • حلقے میں ہندو-مسلم آبادی

مذاہب کی بنیاد پر اعداد و شمار دیکھا جائے تو ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے میں ہندوؤں کی آبادی 69.93 % ہے جب کہ مسلم آبادی 29.23 % ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اس حلقے میں 1,789,704 ہندو اور 748,073 مسلمان بستے ہیں۔ باقی دیگر تمام مذاہب کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے کا نقشہ
ڈومریاگنج لوک سبھا حلقے کا نقشہ (Photo: Proneta)
  • پچھلے لوک سبھا الیکشن کی کہانی

پچھلے لوک سبھا الیکشن 2019 میں ڈومریاگنج حلقے میں ووٹر ٹرن آوٹ 49.96 فیصد تھا جس میں 9,85,330 ووٹ پڑے تھے۔ اس میں بی جے پی کے جگدمبیکا پال کو 492,253 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہے بی ایس پی کے آفتاب عالم کو 3,86,932 ووٹ ملے تھے۔ جگدمبیکا پال کے مقابلے میں آفتاب عالم دس فیصد ووٹوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جگدمبیکا پال گذشتہ تین لوک سبھا انتخابات سے اس سیٹ پر مسلسل جیت درج کر رہے ہیں۔

  • ڈومریاگنج سے قسمت آزمانے والے قدآور رہنما

پہلے اس لوک سبھا حلقے کو بستی مغرب (Basti West) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اترپردیش کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ کو ہمیشہ سے ایک اہم نشست کے طور پر شمار کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سیٹ ملک کی آزادی کے بعد سے قدآور اور سینئر رہنماؤں کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔ ایسے سرکردہ رہنما جو یہاں کے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کر چکے ہیں ان میں قاضی جلیل عباسی، سیما مصطفی، محسنہ قدوائی، نارائن سوروپ شرما، مادھو پرساد ترپاٹھی، برج بھوشن ترپاٹھی اور ماتا پرساد پانڈے کا نام قابل ذکر ہے۔

قاضی جلیل عباسی ایک مجاہد آزادی تھے۔ انہوں نے 1980 اور 1984 میں ڈومریا گنج لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کی تھی۔ ان کا شمار ملک کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہیں ایشین ایج کی سابقہ پولیٹیکل ایڈیٹر صحافی سیما مصطفی نے ڈومریاگنج لوک سبھا سے دو بار الیکشن لڑا تھا۔ تاہم، وہ دونوں بار ہار گئی تھیں۔

اس کے علاوہ یہاں سے الیکشن لڑنے والوں میں ایک اہم نام محسنہ قدوائی کا بھی ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں مرکزی وزیر تھیں۔ انہوں نے 1991 اور 1996 میں ڈومریا گنج لوک سبھا سے الیکشن لڑا تھا، حالانکہ وہ ہار گئی تھیں۔

وہیں اس سیٹ سے قسمت آزمانے والے بیرسٹر نارائن سوروپ شرما آکسفورڈ یونیورسٹی کے ممبر تھے اور 1943 میں بھارتیہ جن سنگھ کے سرگرم رکن رہے۔ وہیں مادھو پرساد ترپاٹھی 1977 میں بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر ڈمریا گنج لوک سبھا سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سماج وادی پارٹی کے قومی نائب صدر رہے برج بھوشن ترپاٹھی نے 1989 کے لوک سبھا انتخابات میں یہاں سے کانگریس کے قاضی جلیل عباسی کو شکست دی تھی۔ اس وقت وہ جنتا دل کے امیدوار تھے۔

اسی کے ساتھ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں دو بار اسمبلی اسپیکر رہ چکے ماتا پرساد پانڈے 2009 اور 2014 کے انتخابات بھی یہاں سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن انہیں دونوں بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

  • ڈومریاگنج سے اب تک منتخب ہوئے ارکان پارلیمنٹ

1952: کیشو دیو مالویہ

1957: رام سنگر لال

1962: کرپا شنگر

1967: نارائن سوروپ شرما

1971: کیشو دیو مالویہ

1980-1984: قاضی جلیل عباسی

1989: برج بھوشن تیواری

1991: رام پال سنگھ

1996: برج بھوشن تیواری

1998-1999: رام پال سنگھ

2004: محمد مقیم

2009-2014-2019: جگدمبیکا پال

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.