ETV Bharat / state

گیا: جاوید یوسف پرانی اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین ہیں - Old and Rare Car Enthusiast

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 3, 2024, 6:23 PM IST

Javed Yusuf of Gaya is an old car enthusiast گیا میں پیشہ سے ' وکیل ' جاوید یوسف جو پرانی اورتاریخی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کے شوقین ہیں۔ اُنکے پاس آج بھی سو سال کے قریب پرانی گاڑیاں اور دیگر چیزیں ہیں۔ گاڑیاں چالو حالت میں ہیں۔ کئی جگہوں پر اُنہوں نے ایگزیبیشن میں حصہ بھی لیا ہے۔ گورنر سمیت کئی وزراء سے اس شوق کے لیے داد سے بھی نوازا جا چکا ہے۔انکے شوق اور کون کون سی گاڑیاں ہیں جسے اُنہوں نے بچا رکھا ہے اس حوالہ سے ای ٹی وی بھارت اردو نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

گیا: جاوید یوسف پرانی اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین ہیں
گیا: جاوید یوسف پرانی اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین ہیں (ETV Bharat)

گیا : ریاست بہار میں چند ایسے افراد ہی ہیں جنہوں نے آزادی سے قبل کی نایاب قیمتی اور پرانی چیزوں کو یادگار کے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ بلکہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اپنے پرانے مہنگے شوق پر آج کی مہنگائی یا نئی چیزوں کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ کچھ پرانی ایسی چیزیں ہیں جو آج گم ہوگئیں، ختم ہوگئیں یا پھر وہ ہیں تو اچھی حالت میں بالکل نہیں ہیں۔ پرانی چیزوں کے شوق میں کسی چیز کا بھی شوق ہو سکتا ہے۔ پرانے سامانوں کو یاد گار کے طور پر رکھنے والوں میں ایک گیا شہر کے چھتہ مسجد علاقہ کے رہنے والے ایڈوکیٹ جاوید یوسف بھی ہیں۔ جنہیں پرانے سامانوں کو سنبھال کر رکھنے کا بے حد شوق ہے۔ اس میں انکا ایک شوق پرانی گاڑیوں کا بھی ہے۔

گیا: جاوید یوسف پرانی اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین ہیں (ETV Bharat)

جاوید یوسف کے پاس سنہ 1938 کی اورینج اور سفید رنگ کی ' اسکوڈا ماڈل 420 پوپلر ایچ ' ٹائپ 906، ،907 اور 1916 ۔17 گاڑی ہے۔ اسکوڈا 20 ایچ پی ہے۔ قریب 85 برس پرانی گاڑی کو انہوں نے نا صرف یاد گار کے طور پر رکھا ہے بلکہ آج بھی وہ اس گاڑی کی ڈرائیونگ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ موجودہ وقت میں لگزری گاڑیوں کے ہونے اور وقت طلب ہونے کے سبب 85 برس پرانی اسکوڈا گاڑی کی ڈرائیو کبھی کبھار خاص مواقع پر ہی کرتے ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ آج بھی وہ بالکل اچھی حالت میں ہے۔ تاہم اسکی ڈرائیو وہ اسلیے بھی کم کرتے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ گاڑی کے اسپیئر پارٹ کمزور ہوگئے ہیں اور آسانی سے پارٹ پرزے ملتے بھی نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اسکو منٹین رکھنا بڑی مشقت اور پریشانی کا معاملہ ہے

دادا نے خریدی تھی کار
جاوید یوسف شہر کے معروف وکلا میں ایک ہیں۔ ان کا شوق بھی انوکھا ہے۔ جاوید یوسف نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ ان کے پاس پرانی گاڑیوں کی ایک فہرست ہوا کرتی تھی۔ مصروفیت کے سبب زیادہ تر گاڑیاں مینٹین نہیں ہونے کی وجہ سے کباڑ میں پڑی ہوئی ہیں۔ لیکن دو ایسی گاڑی ہیں جو ان کے دل کے بے حد قریب ہیں۔ وہ اس لیے بھی ہیں کیونکہ وہ گاڑیوں کے شروعاتی وقت اور دور کی ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا لگاؤ ان کے بزرگوں سے رہا ہے۔ اسکوڈا گاڑی ان کے دادا نے سنہ 1932 کے بعد چیکوسلواکیہ سے منگوایا تھا۔ اسوقت بھی وہ مگدھ کمشنری کی واحد گاڑی تھی جبکہ دوسری گاڑی ایمبیسڈر ہے جو سنہ 1965 میں انکے والد نے 20 ہزار روپے میں شوروم سے خریدا تھا۔ اسکا نمبر بی آر بی 111 ہے۔

اسکے کچھ فیچر آج کی لگزری گاڑیوں میں ہیں
اسکوڈا دنیا میں ایک معروف کمپنی ہی۔ اسکی مہنگی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ جاوید یوسف نے بتایا کہ انکے دادا جو انگریزی حکومت میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز تھے، اُنہوں نے اس گاڑی کو 1200 پاؤنڈ میں خریدا تھا جسکی انڈین روپے میں قیمت اسوقت 14ہزار 400 روپے کے قریب تھی۔ 1932 میں کمپنی نے4 سیٹوں پر مشتمل دو دروازوں والی اس کار کی تخلیق کی تھی۔ جس میں پیچھے سے نصب ایئر کولڈ فلیٹ فور انجن تھا، جس کا ڈیزائن کیرل ہرڈلیکا اور ویسوولوڈ کورولکوف نے بنایا تھا۔ اس کار کا باڈی ورک بعد میں آنے والی چھوٹی کاروں کے ڈیزائن سے بہت ملتا جلتا تھا۔ اسکی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ بریک پاس ایک لیور ہوتا تھا جسکے دبانے سے چاروں چکے میں آٹو میٹک گریسنگ ہوجاتی۔ چونکہ اسوقت کمپیوٹرائز سسٹم گاڑیوں میں استعمال نہیں تھا لیکن اس میں ایلومینیم کا استعمال ہوتا تھا جو کہ آج نئی گاڑیوں میں استعمال ہوکر آرہا ہے۔

سو کی رفتار میں چلتی تھی یہ گاڑی
اسکوڈا کی اس گاڑی کی رفتار بھی زیادہ تھی۔ 100 کی رفتار تک اسکو ڈرائیو کرنے والے چلا لیتے تھے۔ اسکا جاوید یوسف نے بتایا کہ وہ بھی 70 سے 100 کی رفتار میں اسکو چلایا کرتے تھے لیکن اب اسکو 30 سے 40 کی اسپیڈ میں ہی چلاتے ہیں کیونکہ اسکے پارٹ پرزے کمزور ہوچکے ہیں۔ خرابی نہیں آئے اس وجہ سے اسکو بڑے دھیان سے چلایا جاتا ہے۔ اسکا ایک ٹائر خراب ہوگیا ہے، جسے بنانے کے لیے دلی بھیجا گیا ہے۔ اس وجہ سے ابھی دو تین ماہ سے سڑکوں پر نہیں چلی ہے۔ ہر دو تین دنوں کے بعد اسکو اسٹارٹ کرتے ہیں تاکہ انجن چالو حالت میں رہے

ایگزیبیشن میں ہوتے ہیں شریک
جاوید یوسف نے بتایا کہ پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج سید شاہ نیر حسین جب ہائی کورٹ کے جج تھے تب اُنہوں ونٹیج اینڈ کلاسک کار ایسو سی ایشن بہار کی تشکیل کی تھی۔ جسکے رکن جاوید یوسف بھی تھے۔ جسٹس نیئر حسین نے پٹنہ میں سنہ 2012 میں پرانی اور تاریخی کلاسیک کاروں کے ایگزیبیشن کا انعقاد کرایا تھا۔ اس میں کئی تاریخی اور پرانی گاڑیوں کی نمائش ہوئی تھی۔ جس میں ٹکاری مہاراج کی گاڑیاں بھی شامل ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ خود گیا سے پٹنہ تک اس ایگزیبیشن میں شامل ہونے کے لیے اسکو ڈا کار کو ڈرائیور کر کے لے گئے تھے۔ اُنہیں اس ایگزیبیشن میں اعزاز بخشا گیا تھا۔ جاوید یوسف نے کہا یہ کار انکے لیے ایک ورثہ کے طور پر ہے اور انکے لیے یہ اعزاز ہے۔ آگے بھی وہ اپنے شوق کو برقرار رکھیں گے۔ یہ شوق مہنگا اور پریشان کن ہے لیکن پھر بھی وہ شوق کیا جو پورا نہیں ہو۔

گیا : ریاست بہار میں چند ایسے افراد ہی ہیں جنہوں نے آزادی سے قبل کی نایاب قیمتی اور پرانی چیزوں کو یادگار کے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ بلکہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اپنے پرانے مہنگے شوق پر آج کی مہنگائی یا نئی چیزوں کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ کچھ پرانی ایسی چیزیں ہیں جو آج گم ہوگئیں، ختم ہوگئیں یا پھر وہ ہیں تو اچھی حالت میں بالکل نہیں ہیں۔ پرانی چیزوں کے شوق میں کسی چیز کا بھی شوق ہو سکتا ہے۔ پرانے سامانوں کو یاد گار کے طور پر رکھنے والوں میں ایک گیا شہر کے چھتہ مسجد علاقہ کے رہنے والے ایڈوکیٹ جاوید یوسف بھی ہیں۔ جنہیں پرانے سامانوں کو سنبھال کر رکھنے کا بے حد شوق ہے۔ اس میں انکا ایک شوق پرانی گاڑیوں کا بھی ہے۔

گیا: جاوید یوسف پرانی اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین ہیں (ETV Bharat)

جاوید یوسف کے پاس سنہ 1938 کی اورینج اور سفید رنگ کی ' اسکوڈا ماڈل 420 پوپلر ایچ ' ٹائپ 906، ،907 اور 1916 ۔17 گاڑی ہے۔ اسکوڈا 20 ایچ پی ہے۔ قریب 85 برس پرانی گاڑی کو انہوں نے نا صرف یاد گار کے طور پر رکھا ہے بلکہ آج بھی وہ اس گاڑی کی ڈرائیونگ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ موجودہ وقت میں لگزری گاڑیوں کے ہونے اور وقت طلب ہونے کے سبب 85 برس پرانی اسکوڈا گاڑی کی ڈرائیو کبھی کبھار خاص مواقع پر ہی کرتے ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ آج بھی وہ بالکل اچھی حالت میں ہے۔ تاہم اسکی ڈرائیو وہ اسلیے بھی کم کرتے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ گاڑی کے اسپیئر پارٹ کمزور ہوگئے ہیں اور آسانی سے پارٹ پرزے ملتے بھی نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اسکو منٹین رکھنا بڑی مشقت اور پریشانی کا معاملہ ہے

دادا نے خریدی تھی کار
جاوید یوسف شہر کے معروف وکلا میں ایک ہیں۔ ان کا شوق بھی انوکھا ہے۔ جاوید یوسف نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ ان کے پاس پرانی گاڑیوں کی ایک فہرست ہوا کرتی تھی۔ مصروفیت کے سبب زیادہ تر گاڑیاں مینٹین نہیں ہونے کی وجہ سے کباڑ میں پڑی ہوئی ہیں۔ لیکن دو ایسی گاڑی ہیں جو ان کے دل کے بے حد قریب ہیں۔ وہ اس لیے بھی ہیں کیونکہ وہ گاڑیوں کے شروعاتی وقت اور دور کی ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا لگاؤ ان کے بزرگوں سے رہا ہے۔ اسکوڈا گاڑی ان کے دادا نے سنہ 1932 کے بعد چیکوسلواکیہ سے منگوایا تھا۔ اسوقت بھی وہ مگدھ کمشنری کی واحد گاڑی تھی جبکہ دوسری گاڑی ایمبیسڈر ہے جو سنہ 1965 میں انکے والد نے 20 ہزار روپے میں شوروم سے خریدا تھا۔ اسکا نمبر بی آر بی 111 ہے۔

اسکے کچھ فیچر آج کی لگزری گاڑیوں میں ہیں
اسکوڈا دنیا میں ایک معروف کمپنی ہی۔ اسکی مہنگی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ جاوید یوسف نے بتایا کہ انکے دادا جو انگریزی حکومت میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز تھے، اُنہوں نے اس گاڑی کو 1200 پاؤنڈ میں خریدا تھا جسکی انڈین روپے میں قیمت اسوقت 14ہزار 400 روپے کے قریب تھی۔ 1932 میں کمپنی نے4 سیٹوں پر مشتمل دو دروازوں والی اس کار کی تخلیق کی تھی۔ جس میں پیچھے سے نصب ایئر کولڈ فلیٹ فور انجن تھا، جس کا ڈیزائن کیرل ہرڈلیکا اور ویسوولوڈ کورولکوف نے بنایا تھا۔ اس کار کا باڈی ورک بعد میں آنے والی چھوٹی کاروں کے ڈیزائن سے بہت ملتا جلتا تھا۔ اسکی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ بریک پاس ایک لیور ہوتا تھا جسکے دبانے سے چاروں چکے میں آٹو میٹک گریسنگ ہوجاتی۔ چونکہ اسوقت کمپیوٹرائز سسٹم گاڑیوں میں استعمال نہیں تھا لیکن اس میں ایلومینیم کا استعمال ہوتا تھا جو کہ آج نئی گاڑیوں میں استعمال ہوکر آرہا ہے۔

سو کی رفتار میں چلتی تھی یہ گاڑی
اسکوڈا کی اس گاڑی کی رفتار بھی زیادہ تھی۔ 100 کی رفتار تک اسکو ڈرائیو کرنے والے چلا لیتے تھے۔ اسکا جاوید یوسف نے بتایا کہ وہ بھی 70 سے 100 کی رفتار میں اسکو چلایا کرتے تھے لیکن اب اسکو 30 سے 40 کی اسپیڈ میں ہی چلاتے ہیں کیونکہ اسکے پارٹ پرزے کمزور ہوچکے ہیں۔ خرابی نہیں آئے اس وجہ سے اسکو بڑے دھیان سے چلایا جاتا ہے۔ اسکا ایک ٹائر خراب ہوگیا ہے، جسے بنانے کے لیے دلی بھیجا گیا ہے۔ اس وجہ سے ابھی دو تین ماہ سے سڑکوں پر نہیں چلی ہے۔ ہر دو تین دنوں کے بعد اسکو اسٹارٹ کرتے ہیں تاکہ انجن چالو حالت میں رہے

ایگزیبیشن میں ہوتے ہیں شریک
جاوید یوسف نے بتایا کہ پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج سید شاہ نیر حسین جب ہائی کورٹ کے جج تھے تب اُنہوں ونٹیج اینڈ کلاسک کار ایسو سی ایشن بہار کی تشکیل کی تھی۔ جسکے رکن جاوید یوسف بھی تھے۔ جسٹس نیئر حسین نے پٹنہ میں سنہ 2012 میں پرانی اور تاریخی کلاسیک کاروں کے ایگزیبیشن کا انعقاد کرایا تھا۔ اس میں کئی تاریخی اور پرانی گاڑیوں کی نمائش ہوئی تھی۔ جس میں ٹکاری مہاراج کی گاڑیاں بھی شامل ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ خود گیا سے پٹنہ تک اس ایگزیبیشن میں شامل ہونے کے لیے اسکو ڈا کار کو ڈرائیور کر کے لے گئے تھے۔ اُنہیں اس ایگزیبیشن میں اعزاز بخشا گیا تھا۔ جاوید یوسف نے کہا یہ کار انکے لیے ایک ورثہ کے طور پر ہے اور انکے لیے یہ اعزاز ہے۔ آگے بھی وہ اپنے شوق کو برقرار رکھیں گے۔ یہ شوق مہنگا اور پریشان کن ہے لیکن پھر بھی وہ شوق کیا جو پورا نہیں ہو۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.