ETV Bharat / state

گیا: بھگوا لباس میں ملبوس اردو شاعر ہریندر گری شاد سے خاص بات چیت - Urdu Poetry Harinder Giri Shad

Urdu poet Harinder Giri Shaad گیا ضلع کا ایک ایسا ہندو شاعر ہریندر گری شاد جو بھگوا لباس میں ملبوس ہوکر مشاعروں میں شرکت کرتا ہیں۔ اس شاعر کی مقبولیت ریاستی سطح پر ہے۔ ہریندر گری کے اب تک تین مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے ہریندر گری شاد سے انکے اس سفر کے تعلق سے 'ایک شاعر' پروگرام کے تحت خصوصی گفتگو کی۔

گیا: بھگوا لباس میں ملبوس اردو شاعر ہریندر گری شاد
گیا: بھگوا لباس میں ملبوس اردو شاعر ہریندر گری شاد
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 29, 2024, 4:36 PM IST

گیا: بھگوا لباس میں ملبوس اردو شاعر ہریندر گری شاد سے خاص بات چیت

گیا: ضلع گیا کا ایک غیر مسلم شاعر جسے زمانہ طالب علمی سے شاعری کا شوق تھا لیکن جب اُسنے بڑے ہوکر اردو اشعار سنے تو دل پر گہرا اثر پڑا اور تبھی ارادہ کر لیا کہ پہلے وہ اُردو پڑھے گا اور اگر شاعری کی تو صرف اُردو میں ہی اشعار ،غزلیں ،رباعی گو ہوگا۔ اُردو شاعری کی ابتدا فرحت قادری جیسے بڑے شاعر کی شاگردی میں کی، گزشتہ کچھ برسوں میں انکی تین کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ ہریندر گری شاد ضلع اور ریاست میں اپنے حلیہ اور لباس کے لئے بھی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور وہ مسلسل اُردو ادب کی خدمات میں مصروف ہیں۔ بھگوا لباس میں ملبوس رہنے والے ہریندر گری شاد کی صفت ایک سنت والی ہے۔ ہریندر گری شاد کی شاعری میں مظلوموں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ گیا سول کورٹ سے متصل محلے میں واقع انکی رہائش گاہ پر آج ای ٹی وی بھارت نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

ہریندر گری شاد نے گفتگو کا آغاز اسی سوال کے جواب پر کیا کہ اُردو کی شاعری کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا ؟ انہوں نے کہا کہ شاعری کا شوق تھا لیکن اُردو سے واقفیت نہیں تھی، گاوں سے نکل کر شہر گیا تک پہنچا تو پتہ چلا کہ اُردو اتنی سخت بھی نہیں جسے سکھا اور پڑھا نہیں جا سکتا ہے۔ اُردو کے مشاعروں میں ہندی کے شعر پڑھا تو شاعروں اور ادیبوں دوستوں نے مشورہ دیا کہ اُردو پڑھ لو زبان تلفظ بہتر ہوگا اور شاعری کی باریک بینی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ تبھی اُردو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ مکتب سے شروعات کی اور پھر بہار کے اسوقت کے بڑے شاعروں میں ایک عالیجناب فرحت قادری ' مرحوم ' تک جا پہنچا اور انہی کی نگرانی سرپرستی میں اُردو پڑھنے سیکھنے کو مزید تقویت ملی۔ فرحت قادری استاد رہے اور اُنہوں نے بڑی محبت سے نا صرف اُردو پڑھایا بلکہ شاعری کے شوق کو پورا کراتے ہوئے شاعر بنا کر شاعروں اور ادیبوں کی فہرست میں کھڑا کردیا۔

روشن مستقبل ہے

اُردو کسی خاص فرقے اور مذہب کی زبان نہیں بلکہ یہ ہندوستان کی زبان ہے۔ اسلئے اُردو برادری میں کوئی ایک مذہب کا نہیں ہے بلکہ ہر مذہب علاقہ کے لوگ ہیں۔ اُردو برادری کا مطلب مسلمان نہیں ہے بلکہ ہر اُردو جاننے والا ہے۔ اگر ایک قوم مذہب کے ماننے والوں کی زبان ہوتی تو سینکڑوں زبان و ادب جنکا وجود ختم ہو چکا ہے اس طرح اُردو زبان کا بھی دم نکل جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ ملک کے لوگوں کے عام بول چال میں استعمال ہونے والی زبان بھی ہے۔

اردو اکادمی سے ملی ہے مدد

ہریندر گری گیا ضلع کے کسی بھی ادبی مجلس میں شامل ہونے سے پیچھے نہیں رہتے۔ جہاں بھی انکو بلایا جاتا وہ یقینی طور پر اپنی حاضری درج کراتے ہیں۔ وہ ایک متحرک ادیب اور شاعر ہیں۔ تین مجموعے ' کسک صبح نو اور صدا ' منظر عام پر آچکے ہیں۔ اردو اکادمی کی طرف سے انہیں ابھی تازہ مجموعہ کے لیے مالی مدد کی گئی ہے اور اکادمی کے تعاون سے کتاب شائع ہوئی ہے۔

مشاعروں میں ملتا ہے پیار

اُنہوں نے دوران گفتگو کہا کہ انکا تعلق مذہبی طور پر ہندو مذہب سے ہے۔ لیکن انکی شہرت اُردو آبادی کے فرد کے طور پر ہے۔ جب بھی مشاعروں میں جاتے ہیں لوگوں کا پیار قابل دید ہوتا ہے۔ تحت لفظ میں اشعار پڑھتا ہوں باوجود کہ ہر کوئی انکے اشعار سننے کو بے تاب ہوتا ہے۔ پھر کہو ں گا کہ انسانیت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے چند اشعار کچھ یوں سنایا کہ۔۔
جس کی خاطر لہو بہایا تھا
ہے پرایا و گلستان اپنا
شاد میں نے تو روشنی کے لیے

خود جلا ڈالا ہے مکاں اپنا
دیکھا میرے ہونٹوں پہ جو الفت کا تبسم
شرمندہ ہوا کتنا وہ قاتل میرے آگے

گیا: بھگوا لباس میں ملبوس اردو شاعر ہریندر گری شاد سے خاص بات چیت

گیا: ضلع گیا کا ایک غیر مسلم شاعر جسے زمانہ طالب علمی سے شاعری کا شوق تھا لیکن جب اُسنے بڑے ہوکر اردو اشعار سنے تو دل پر گہرا اثر پڑا اور تبھی ارادہ کر لیا کہ پہلے وہ اُردو پڑھے گا اور اگر شاعری کی تو صرف اُردو میں ہی اشعار ،غزلیں ،رباعی گو ہوگا۔ اُردو شاعری کی ابتدا فرحت قادری جیسے بڑے شاعر کی شاگردی میں کی، گزشتہ کچھ برسوں میں انکی تین کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ ہریندر گری شاد ضلع اور ریاست میں اپنے حلیہ اور لباس کے لئے بھی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور وہ مسلسل اُردو ادب کی خدمات میں مصروف ہیں۔ بھگوا لباس میں ملبوس رہنے والے ہریندر گری شاد کی صفت ایک سنت والی ہے۔ ہریندر گری شاد کی شاعری میں مظلوموں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ گیا سول کورٹ سے متصل محلے میں واقع انکی رہائش گاہ پر آج ای ٹی وی بھارت نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

ہریندر گری شاد نے گفتگو کا آغاز اسی سوال کے جواب پر کیا کہ اُردو کی شاعری کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا ؟ انہوں نے کہا کہ شاعری کا شوق تھا لیکن اُردو سے واقفیت نہیں تھی، گاوں سے نکل کر شہر گیا تک پہنچا تو پتہ چلا کہ اُردو اتنی سخت بھی نہیں جسے سکھا اور پڑھا نہیں جا سکتا ہے۔ اُردو کے مشاعروں میں ہندی کے شعر پڑھا تو شاعروں اور ادیبوں دوستوں نے مشورہ دیا کہ اُردو پڑھ لو زبان تلفظ بہتر ہوگا اور شاعری کی باریک بینی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ تبھی اُردو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ مکتب سے شروعات کی اور پھر بہار کے اسوقت کے بڑے شاعروں میں ایک عالیجناب فرحت قادری ' مرحوم ' تک جا پہنچا اور انہی کی نگرانی سرپرستی میں اُردو پڑھنے سیکھنے کو مزید تقویت ملی۔ فرحت قادری استاد رہے اور اُنہوں نے بڑی محبت سے نا صرف اُردو پڑھایا بلکہ شاعری کے شوق کو پورا کراتے ہوئے شاعر بنا کر شاعروں اور ادیبوں کی فہرست میں کھڑا کردیا۔

روشن مستقبل ہے

اُردو کسی خاص فرقے اور مذہب کی زبان نہیں بلکہ یہ ہندوستان کی زبان ہے۔ اسلئے اُردو برادری میں کوئی ایک مذہب کا نہیں ہے بلکہ ہر مذہب علاقہ کے لوگ ہیں۔ اُردو برادری کا مطلب مسلمان نہیں ہے بلکہ ہر اُردو جاننے والا ہے۔ اگر ایک قوم مذہب کے ماننے والوں کی زبان ہوتی تو سینکڑوں زبان و ادب جنکا وجود ختم ہو چکا ہے اس طرح اُردو زبان کا بھی دم نکل جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ ملک کے لوگوں کے عام بول چال میں استعمال ہونے والی زبان بھی ہے۔

اردو اکادمی سے ملی ہے مدد

ہریندر گری گیا ضلع کے کسی بھی ادبی مجلس میں شامل ہونے سے پیچھے نہیں رہتے۔ جہاں بھی انکو بلایا جاتا وہ یقینی طور پر اپنی حاضری درج کراتے ہیں۔ وہ ایک متحرک ادیب اور شاعر ہیں۔ تین مجموعے ' کسک صبح نو اور صدا ' منظر عام پر آچکے ہیں۔ اردو اکادمی کی طرف سے انہیں ابھی تازہ مجموعہ کے لیے مالی مدد کی گئی ہے اور اکادمی کے تعاون سے کتاب شائع ہوئی ہے۔

مشاعروں میں ملتا ہے پیار

اُنہوں نے دوران گفتگو کہا کہ انکا تعلق مذہبی طور پر ہندو مذہب سے ہے۔ لیکن انکی شہرت اُردو آبادی کے فرد کے طور پر ہے۔ جب بھی مشاعروں میں جاتے ہیں لوگوں کا پیار قابل دید ہوتا ہے۔ تحت لفظ میں اشعار پڑھتا ہوں باوجود کہ ہر کوئی انکے اشعار سننے کو بے تاب ہوتا ہے۔ پھر کہو ں گا کہ انسانیت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے چند اشعار کچھ یوں سنایا کہ۔۔
جس کی خاطر لہو بہایا تھا
ہے پرایا و گلستان اپنا
شاد میں نے تو روشنی کے لیے

خود جلا ڈالا ہے مکاں اپنا
دیکھا میرے ہونٹوں پہ جو الفت کا تبسم
شرمندہ ہوا کتنا وہ قاتل میرے آگے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.