پریاگ راج: متھرا شاہی عیدگاہ مسجد اور کرشن جنم بھومی معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو سماعت ہوئی۔ اس دوران مسلم فریق نے تقریباً دو گھنٹوں تک اپنے دلائل پیش کیے۔ اس سلسلے میں بدھ کے روز ہوئی بحث میں مسلم فریق کے دلائل مکمل نہیں ہوسکے۔ عدالت اب اس معاملے کی دوبارہ سماعت 20 مارچ کو کرے گی۔
بدھ کو ہوئی سماعت میں مسلم فریق کی طرف سے تقریباً دو گھنٹے تک دلائل پیش کیے گئے۔ تاہم پانچویں دن بھی مسلم فریق اپنی بحث ختم نہ کرسکا۔ آج بھی مسلم کی طرف سے چار اہم نکات پر دلائل پیش کیے گئے۔ جسٹس مینک کمار جین کے سامنے سپریم کورٹ کے وکیل تسنیم احمدی نے مسلم فریق کی طرف سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مقدمات کی برقراری کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ متھرا کیس سے متعلق دائر مقدمات 1991 کے عبادت گاہ ایکٹ (The Place of Worship Act, 1991) کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس ایکٹ کی وجہ سے ان مقدمات کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ حد بندی ایکٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مندر اور شاہی عیدگاہ مسجد کے درمیان 1968 میں معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت ہی شاہی عیدگاہ مسجد کو 13.37 ایکڑ اراضی ملی ہے۔ یہ معاہدہ 1973 میں متھرا کی عدالت میں بھی ہوا تھا۔ ضابطے کے مطابق معاہدے اور حکم نامے کو تین سال کے اندر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں 50 سال بعد مقدمہ درج کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ شاہی عیدگاہ مسجد وقف جائیداد ہے۔ چونکہ یہ وقف جائیداد ہے اس لیے اس معاملے کی سماعت صرف وقف ٹریبونل میں ہی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ متنازع زمین پر ہندو فریق کا قبضہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ معاملہ مخصوص ریلیف ایکٹ کی وجہ سے بھی نہیں چل سکتا ہے۔
متھرا شاہی عیدگاہ مسجد اور مندر تنازع سے متعلق دائر ڈیڑھ درجن مقدمات ایودھیا تنازع کی طرز پر الہ آباد ہائی کورٹ میں براہ راست زیر سماعت ہیں۔ متھرا تنازع سے متعلق جن 18 مقدمات کی ہائی کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے، ان میں سے دو معاملات میں ابھی تک اعتراضات داخل نہیں کیے گئے ہیں۔ عدالت نے اعتراض داخل کرنے کے لیے تین دن کا وقت دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متھرا شاہی عیدگاہ مسجد احاطہ کا سروے ہوگا: الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
اگر عبادت گاہوں کے ایکٹ پر عمل کیا جائے تو زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے: اویسی