ETV Bharat / state

احمد آباد میں شاہین باغ کی شروعات کیسے ہوئی؟ کیا پھر نیا شاہین باغ بنے گا؟

Will New Shaheen Bagh Resume?: مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے) کو نافذ کر دیا ہے۔ یہ قانون سال 2019 میں منظور ہوا تھا اور 11 مارچ 2024 کو وزارت داخلہ نے اس قانون کے نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں اس قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

How Shaheen Bagh of Ahmedabad started? Will New Shaheen Bagh Resume?
How Shaheen Bagh of Ahmedabad started? Will New Shaheen Bagh Resume?
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 18, 2024, 5:33 PM IST

Updated : Mar 19, 2024, 4:41 PM IST

احمد آباد میں شاہین باغ کی شروعات کیسے ہوئی؟ کیا پھر نیا شاہین باغ بنے گا؟

احمد آباد: مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس کے تحت اب تین پڑوسی ممالک کی اقلیتی طبقہ کے ہندوستانی شہریت حاصل کر سکیں گے۔ اس کے لیے انہیں مرکزی حکومت کے تیار کردہ آن لائن پورٹل پر درخواست دینا ہوگا۔ پانچ سال قبل اس بل اور قانون کی مخالفت میں دہلی کی طرز پر احمد آباد میں بھی ایک شاہین باغ بنا تھا۔ احمد آباد کا شاہین باغ کیسے شروع ہوا؟ کیا نیا شاہین باغ دوبارہ شروع ہوگا؟ اس تعلق سے کلیم صدیقی نے کہا کہ دہلی میں سی اے اے، این آر سی، ایم پی آر کے خلاف شاہین باغ بنا تو ملک میں اس کا سپورٹ کیا گیا اور مختلف مقامات پر شاہین باغ بنائے گئے تو ہم نے بھی سوچا کہ بعد میں ہمیں بھی شاہین باغ بنانا چاہیے لیکن کوئی صحیح جگہ نہیں مل رہی تھی پھر ہم نے بہت سوچ سمجھ کر احمد آباد کے اجیت مل رکھیال میں موجود خواجہ غریب نواز سوسائٹی کے گراؤنڈ میں ہم 14 جنوری 2020 کو رات میں دس بجے ہم چار پانچ لوگ احتجاجی مظاہرہ کرنے بیٹھ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ ہم کسی پبلک پیلس پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس کے لیے ہم نے سوسائٹی کی جگہ پسند کی اورہمارے احتجاج مظاہرے کی شروعات کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کو تیزی سے خبر ملنے لگی اور لوگ ہمارے ساتھ آہستہ آہستہ جڑتے گئے کیونکہ یہ اندولن خواتین کا تھا اور احتجاجی مظاہرے میں خواتین نے بیٹھنے کی شروعات کی اور نازیہ انصاری نے اس احتجاجی مظاہرے کو لیڈ کیا اور دو مہینے تک یہ احتجاجی مظاہرہ اسی مقام پر خواتین کے ذریعہ چلتا رہا۔ اور ملک بھر کے عظیم رہنما و افراد اس عرصہ میں اس احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے آئے۔ ایک وقت تھا جب رام چندر گوہا پروفیسر چمن لال جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا یہاں آئے اور سی اے اے، این آر سی خلاف آواز بلند کی۔ اور کہا کہ احمد آباد کے لوگ خاموش نہیں ہیں وہ بھی دہلی کے شاہین باغ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ بھلے ہی گجرات، مودی اور امت شاہ کا گھر ہو لیکن اگر حکومت کوئی بھی غلط قانون پاس کرے گی تو اس کی مخالفت یہاں کے لوگ بھی کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ کورونا وائرس کے قہر کی وجہ سے اچانک شاہین باغ میں ہو رہے احتجاجی مظاہرے کو بند کرنا پڑا اور اسی کے چلتے احمدآباد میں بھی احتجاجی مظاہرہ بند ہوا کیونکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ گیا تھا۔ شاہین باغ بند ہونے کے بعد بھی ہمیں راحت نہیں ملی۔ ہم پر بہت سارے کیسز کیے گئے۔ بہت سارے مسائل سامنے آئے اور سب سے زیادہ میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہا تھا ایک طرف لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لڑائی لڑ رہے تھے تو میں اپنے اوپر کیے گئے فیک کیسز سے نجات پانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہا تھا۔ مجھے تڑی پار کا آرڈر ہوا۔ اس کی وجہ سے مجھے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ مجھ پر پاسا جیسا قانون بھی لگایا گیا۔ اس کے لیے مجھے ہائی کورٹ سے اسٹے بھی لینا پڑا۔ اور ایک سال تک یہ لڑائی جاری رہی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے ججمینٹ دیا ہے اور مجھے ان تمام مشکلوں سے نجات ملی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ہم اس قانون کے خلاف ہیں۔ حکومت نے ابھی سی اے اے قانون کو لایا ہے لیکن ابھی این آر سی کی بات نہیں کی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہم ابھی صرف شہریت دینے کے لیے اس قانون کو لائے ہیں لیکن ہماری شہریت پر جس دن خطرہ محسوس ہوا۔ ہماری شہریت کو چیلنج دیا گیا۔ یا دیش کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کی یا انہیں کسی کیمپ میں بھیجنے کی بات کرے گی اور ہم سے کاغذ مانگنے کی بات کرے گی تو مسلمان ایک بار پھر متحد ہوگا اور اس قانون کے خلاف احتجاج کرے گا اور کاغذ نہیں دکھائے گا۔

احمد آباد میں شاہین باغ کی شروعات کیسے ہوئی؟ کیا پھر نیا شاہین باغ بنے گا؟

احمد آباد: مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس کے تحت اب تین پڑوسی ممالک کی اقلیتی طبقہ کے ہندوستانی شہریت حاصل کر سکیں گے۔ اس کے لیے انہیں مرکزی حکومت کے تیار کردہ آن لائن پورٹل پر درخواست دینا ہوگا۔ پانچ سال قبل اس بل اور قانون کی مخالفت میں دہلی کی طرز پر احمد آباد میں بھی ایک شاہین باغ بنا تھا۔ احمد آباد کا شاہین باغ کیسے شروع ہوا؟ کیا نیا شاہین باغ دوبارہ شروع ہوگا؟ اس تعلق سے کلیم صدیقی نے کہا کہ دہلی میں سی اے اے، این آر سی، ایم پی آر کے خلاف شاہین باغ بنا تو ملک میں اس کا سپورٹ کیا گیا اور مختلف مقامات پر شاہین باغ بنائے گئے تو ہم نے بھی سوچا کہ بعد میں ہمیں بھی شاہین باغ بنانا چاہیے لیکن کوئی صحیح جگہ نہیں مل رہی تھی پھر ہم نے بہت سوچ سمجھ کر احمد آباد کے اجیت مل رکھیال میں موجود خواجہ غریب نواز سوسائٹی کے گراؤنڈ میں ہم 14 جنوری 2020 کو رات میں دس بجے ہم چار پانچ لوگ احتجاجی مظاہرہ کرنے بیٹھ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ ہم کسی پبلک پیلس پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس کے لیے ہم نے سوسائٹی کی جگہ پسند کی اورہمارے احتجاج مظاہرے کی شروعات کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کو تیزی سے خبر ملنے لگی اور لوگ ہمارے ساتھ آہستہ آہستہ جڑتے گئے کیونکہ یہ اندولن خواتین کا تھا اور احتجاجی مظاہرے میں خواتین نے بیٹھنے کی شروعات کی اور نازیہ انصاری نے اس احتجاجی مظاہرے کو لیڈ کیا اور دو مہینے تک یہ احتجاجی مظاہرہ اسی مقام پر خواتین کے ذریعہ چلتا رہا۔ اور ملک بھر کے عظیم رہنما و افراد اس عرصہ میں اس احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے آئے۔ ایک وقت تھا جب رام چندر گوہا پروفیسر چمن لال جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا یہاں آئے اور سی اے اے، این آر سی خلاف آواز بلند کی۔ اور کہا کہ احمد آباد کے لوگ خاموش نہیں ہیں وہ بھی دہلی کے شاہین باغ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ بھلے ہی گجرات، مودی اور امت شاہ کا گھر ہو لیکن اگر حکومت کوئی بھی غلط قانون پاس کرے گی تو اس کی مخالفت یہاں کے لوگ بھی کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ کورونا وائرس کے قہر کی وجہ سے اچانک شاہین باغ میں ہو رہے احتجاجی مظاہرے کو بند کرنا پڑا اور اسی کے چلتے احمدآباد میں بھی احتجاجی مظاہرہ بند ہوا کیونکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ گیا تھا۔ شاہین باغ بند ہونے کے بعد بھی ہمیں راحت نہیں ملی۔ ہم پر بہت سارے کیسز کیے گئے۔ بہت سارے مسائل سامنے آئے اور سب سے زیادہ میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہا تھا ایک طرف لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لڑائی لڑ رہے تھے تو میں اپنے اوپر کیے گئے فیک کیسز سے نجات پانے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہا تھا۔ مجھے تڑی پار کا آرڈر ہوا۔ اس کی وجہ سے مجھے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ مجھ پر پاسا جیسا قانون بھی لگایا گیا۔ اس کے لیے مجھے ہائی کورٹ سے اسٹے بھی لینا پڑا۔ اور ایک سال تک یہ لڑائی جاری رہی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے ججمینٹ دیا ہے اور مجھے ان تمام مشکلوں سے نجات ملی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ہم اس قانون کے خلاف ہیں۔ حکومت نے ابھی سی اے اے قانون کو لایا ہے لیکن ابھی این آر سی کی بات نہیں کی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہم ابھی صرف شہریت دینے کے لیے اس قانون کو لائے ہیں لیکن ہماری شہریت پر جس دن خطرہ محسوس ہوا۔ ہماری شہریت کو چیلنج دیا گیا۔ یا دیش کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کی یا انہیں کسی کیمپ میں بھیجنے کی بات کرے گی اور ہم سے کاغذ مانگنے کی بات کرے گی تو مسلمان ایک بار پھر متحد ہوگا اور اس قانون کے خلاف احتجاج کرے گا اور کاغذ نہیں دکھائے گا۔

Last Updated : Mar 19, 2024, 4:41 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.