رانچی: جھارکھنڈ کے سنتھل پرگنہ کے مختلف اضلاع میں بنگلہ دیشی دراندازی کا معاملہ اب ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ آج جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے جسٹس سوجیت نارائن پرساد اور جسٹس ارون کمار رائے کی ڈویژن بنچ میں سماعت ہوئی۔ ڈویژن بنچ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ سنتھل پرگنہ خطے کے تمام ڈپٹی کمشنروں کو بنگلہ دیش سے آنے والے دراندازوں کی شناخت کر کے انہیں واپس بھیجنے کے لیے ایکشن پلان تیار کرنے اور باہمی تال میل سے کام کرنے کی ہدایت دے۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے دو ہفتے کے اندر حلف نامہ کے ذریعے اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کو کہا ہے۔
دراصل سنتھل میں بنگلہ دیشی دراندازی کو لے کر کافی عرصے سے سیاست چل رہی ہے۔ خاص طور پر بی جے پی اس معاملے پر آواز اٹھا رہی ہے۔ بی جے پی کے سبھی سینئر لیڈر اس مسئلہ کو بار بار اٹھا رہے ہیں۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ بنگلہ دیشی دراندازی کی وجہ سے کئی سنتھل اضلاع میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ کئی بار اسمبلی میں بھی اٹھایا جا چکا ہے۔ تاہم ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ کے کسی ضلع کی بنگلہ دیش سے متصل سرحد نہیں ہے۔ اگر دراندازی ہو رہی ہے تو اسے روکنا مرکزی حکومت کا کام ہے۔
30 جون کو بی جے پی صدر بابولال مرانڈی نے قبائلیوں کی تیزی سے کم ہوتی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ہم 1951 کی مردم شماری اور 2011 کی مردم شماری کے درمیان کی آبادی کا تجزیہ کریں تو ہولناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ 1951 میں قبائلی آبادی 44.69 فیصد تھی جو 2011 میں 16 فیصد کم ہو کر 28.11 فیصد رہ گئی۔ جب کہ مسلم آبادی اس دوران 9.44 فیصد سے بڑھ کر 22.73 فیصد ہو گئی۔ حالانکہ باقی کمیونٹیز کی آبادی بھی 43 فیصد سے بڑھ کر 49 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود قبائلی آبادی میں گراوٹ کو بی جے پی بنگلہ دیشی دراندازی کا نام دے کر مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔