ETV Bharat / state

سپریم کورٹ میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری

SC Hearing in AMU Minority Status Case: سپریم کورٹ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری ہے۔ پہلے تین دن کی سماعت میں اے ایم یو اپنے دلائل پیش کر چکی ہے۔ 11 جنوری کے بعد اب گذشتہ روز سے سات ججوں کی بینچ نے دوبارہ سماعت شروع کردی ہے۔

Hearing of AMU and its minority role continues in the Supreme Court
Hearing of AMU and its minority role continues in the Supreme Court
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 24, 2024, 1:01 PM IST

علیگڑھ: سپریم کورٹ میں اے ایم یو اور اس کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری ہے۔ اس طرح ایک بار پھر عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور علیگ برادری کی نظریں سپریم کورٹ میں چل رہی اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق سماعت پر لگ گئی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اپنے قیام کے 104 سال بعد اپنے ہی اقلیتی کردار کی لڑائی سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہے۔ اس کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے یا اس کو برقرار رکھنے سے متعلق سپریم کورٹ میں 9 جنوری سے 11 جنوری تک چلنے کے بعد گزشتہ روز سے دوبارہ سماعت شروع ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے کورٹ میں 'اے ایم یو 1981 ترمیمی ایکٹ' کے خلاف حلف نامہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ اے ایم یو مرکزی فنڈ سے چلائی جاتی ہے اور اس کے منتظمین غیر مسلم بھی ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے اے ایم یو کی اقلیتی کردار سے متعلق معاملات کی سماعت گزشتہ روز سے دوبارہ شروع کردی ہے۔ سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل ہیں۔

اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے ہیں، 9 سے 11 جنوری میں اے ایم یو کی جانب سے دلائل پیش کیے جا چکے ہیں۔ سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں: سپریم کورٹ

ریٹائرڈ پروفیسر و مصنف عارف الاسلام:
اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق اے ایم یو سے ریٹائرڈ پروفیسر و مصنف عارف الاسلام کا کہنا ہے 'مولانا آزاد سر سید کی کامیاب جدید تعلیمی مشن کی وجہ سے ناراض تھے، ملک کے تقسیم سے قبل سے ہی مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم سے متعلق سر سید کی ہر چیز کی مولانا آزاد نے مخالف کی۔
عارف الاسلام نے 1912 کے الہلال البلاغ اخبارات، خلافت تحریک کی تقریر اور مولانا کے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اے ایم یو کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی اور جب وہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اے ایم یو 1920 ایکٹ ترمیم بل پیش کرکے اس کے اقلیتی کردار کی بنیادی چیزوں کو ختم کردیا، جسے انہوں نے اے ایم یو میں جو پہلے دینیات کی تعلیم لازمی تھی اس کو ختم کیا، اعلیٰ گورننگ باڈی اے ایم یو کورٹ میں غیر مسلم کو بی رکنیت حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔ 1951 ترمیمی ایکٹ کی بنا پر ہی 1967 میں اے ایم یو سے اقلیتی کردار یہ کہ کر چھین لیا گیا کہ اے ایم یو کو قائم تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن چونکہ غیر مسلم بھی اے ایم یو کورٹ کے ممبر ہیں تو اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔


پروفیسر محمد محب الحق:
اے ایم یو شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محمد محب الحق کا کہنا ہے جو کام راجا رام موہن رائے نے ہندوؤں کے لیے کیا وہی کام سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لیے کیا تھا۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج قائم کرکے جو 1920 میں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا۔
بسر سید 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے کیونکہ سر سید سمجھتے تھے اس دور کی مدرسہ تعلیم وقت کے مطابق نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے علیگڑھ تحریک چلائی اور ملک کے مسلمانوں کو سائنسی اور مغربی تعلیم کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے دروازے دیگر مذاہب کے لیے بھی کھلے رکھے۔ پروفیسر محب الحق نے زور دیتے ہوئے بتایا کہ 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت برطانوی حکومت کی شرط کے مطابق اس وقت مسلمانوں نے جو 30 لاکھ روپے دے کر اے ایم یو کا درجہ حاصل کیا تھا اس کمیونٹی کے کنٹریبیوشن کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

پروفیسر محمد سجاد:
اے ایم یو، شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد کا کہنا ہے، محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج جو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور تعاون کرنے والے غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا، مسلمانوں کی جدید تعلیم کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے یہ ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔
جس کے قیام میں مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے بھی تعاون کیا اور غیر مسلم نے بھی تعاون اس لیے ہی کیا تھا کہ مسلمان جدید تعلیم کے میدان میں بھی آگے آئے، یعنی غیر مسلم بھی تعاون مسلم کی تعلیمی ترکی کے لیے دے رہے تھے۔ پروفیسر سجاد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی برطانوی حکومت (1917-22) کے دور میں ملک میں دیگر یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئی لکھنو یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی اور ڈھاکا یونیورسٹی ان یونیورسٹی میں سے کسی بھی یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیا گیا جب کہ لکھنؤ یونیورسٹی کی تعمیر میں راجہ محمود آباد زیادہ وقت دے رہے تھے جبکی اس وقت وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے لیکن وہ زیادہ تر وقت لکھنؤ میں گزارتے تھے۔

ڈاکٹر راحت ابرار:
اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر و اے ایم یو کے سابق پی آر او ڈاکٹر راحت ابرار کا کہنا ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے اور تاریخ میں بھی درج ہے کہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا اور 1981 کے ترمیمی ایکٹ کے مطابق بھی یہ نہ صرف ایک اقلیتی ادارہ ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی بھی ذمہ داری اے ایم یو پر ہی عائد ہے۔ لیکن دور حکومت کا کہنا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے جس کی لڑائی اے ایم یو 2004 سے لڑ رہا ہے۔ سر سید نے مدرسہ، کالج اور مستقبل کی یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے بنائی تھی یہ بات الگ ہے دیگر مذاہب کے طلبہ و طالبات کے لیے یونیورسٹی کے دروازے کھلے رکھے۔

علیگڑھ: سپریم کورٹ میں اے ایم یو اور اس کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری ہے۔ اس طرح ایک بار پھر عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور علیگ برادری کی نظریں سپریم کورٹ میں چل رہی اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق سماعت پر لگ گئی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اپنے قیام کے 104 سال بعد اپنے ہی اقلیتی کردار کی لڑائی سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہے۔ اس کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے یا اس کو برقرار رکھنے سے متعلق سپریم کورٹ میں 9 جنوری سے 11 جنوری تک چلنے کے بعد گزشتہ روز سے دوبارہ سماعت شروع ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے کورٹ میں 'اے ایم یو 1981 ترمیمی ایکٹ' کے خلاف حلف نامہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ اے ایم یو مرکزی فنڈ سے چلائی جاتی ہے اور اس کے منتظمین غیر مسلم بھی ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے اے ایم یو کی اقلیتی کردار سے متعلق معاملات کی سماعت گزشتہ روز سے دوبارہ شروع کردی ہے۔ سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل ہیں۔

اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے ہیں، 9 سے 11 جنوری میں اے ایم یو کی جانب سے دلائل پیش کیے جا چکے ہیں۔ سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں: سپریم کورٹ

ریٹائرڈ پروفیسر و مصنف عارف الاسلام:
اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق اے ایم یو سے ریٹائرڈ پروفیسر و مصنف عارف الاسلام کا کہنا ہے 'مولانا آزاد سر سید کی کامیاب جدید تعلیمی مشن کی وجہ سے ناراض تھے، ملک کے تقسیم سے قبل سے ہی مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم سے متعلق سر سید کی ہر چیز کی مولانا آزاد نے مخالف کی۔
عارف الاسلام نے 1912 کے الہلال البلاغ اخبارات، خلافت تحریک کی تقریر اور مولانا کے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اے ایم یو کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی اور جب وہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اے ایم یو 1920 ایکٹ ترمیم بل پیش کرکے اس کے اقلیتی کردار کی بنیادی چیزوں کو ختم کردیا، جسے انہوں نے اے ایم یو میں جو پہلے دینیات کی تعلیم لازمی تھی اس کو ختم کیا، اعلیٰ گورننگ باڈی اے ایم یو کورٹ میں غیر مسلم کو بی رکنیت حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔ 1951 ترمیمی ایکٹ کی بنا پر ہی 1967 میں اے ایم یو سے اقلیتی کردار یہ کہ کر چھین لیا گیا کہ اے ایم یو کو قائم تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن چونکہ غیر مسلم بھی اے ایم یو کورٹ کے ممبر ہیں تو اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔


پروفیسر محمد محب الحق:
اے ایم یو شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محمد محب الحق کا کہنا ہے جو کام راجا رام موہن رائے نے ہندوؤں کے لیے کیا وہی کام سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لیے کیا تھا۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج قائم کرکے جو 1920 میں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا۔
بسر سید 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے کیونکہ سر سید سمجھتے تھے اس دور کی مدرسہ تعلیم وقت کے مطابق نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے علیگڑھ تحریک چلائی اور ملک کے مسلمانوں کو سائنسی اور مغربی تعلیم کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے دروازے دیگر مذاہب کے لیے بھی کھلے رکھے۔ پروفیسر محب الحق نے زور دیتے ہوئے بتایا کہ 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت برطانوی حکومت کی شرط کے مطابق اس وقت مسلمانوں نے جو 30 لاکھ روپے دے کر اے ایم یو کا درجہ حاصل کیا تھا اس کمیونٹی کے کنٹریبیوشن کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

پروفیسر محمد سجاد:
اے ایم یو، شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد کا کہنا ہے، محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج جو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور تعاون کرنے والے غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا، مسلمانوں کی جدید تعلیم کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے یہ ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔
جس کے قیام میں مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے بھی تعاون کیا اور غیر مسلم نے بھی تعاون اس لیے ہی کیا تھا کہ مسلمان جدید تعلیم کے میدان میں بھی آگے آئے، یعنی غیر مسلم بھی تعاون مسلم کی تعلیمی ترکی کے لیے دے رہے تھے۔ پروفیسر سجاد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی برطانوی حکومت (1917-22) کے دور میں ملک میں دیگر یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئی لکھنو یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی اور ڈھاکا یونیورسٹی ان یونیورسٹی میں سے کسی بھی یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیا گیا جب کہ لکھنؤ یونیورسٹی کی تعمیر میں راجہ محمود آباد زیادہ وقت دے رہے تھے جبکی اس وقت وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے لیکن وہ زیادہ تر وقت لکھنؤ میں گزارتے تھے۔

ڈاکٹر راحت ابرار:
اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر و اے ایم یو کے سابق پی آر او ڈاکٹر راحت ابرار کا کہنا ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے اور تاریخ میں بھی درج ہے کہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا اور 1981 کے ترمیمی ایکٹ کے مطابق بھی یہ نہ صرف ایک اقلیتی ادارہ ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی بھی ذمہ داری اے ایم یو پر ہی عائد ہے۔ لیکن دور حکومت کا کہنا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے جس کی لڑائی اے ایم یو 2004 سے لڑ رہا ہے۔ سر سید نے مدرسہ، کالج اور مستقبل کی یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے بنائی تھی یہ بات الگ ہے دیگر مذاہب کے طلبہ و طالبات کے لیے یونیورسٹی کے دروازے کھلے رکھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.