ETV Bharat / state

سرکاری اسکولوں کے انٹر میں داخلہ کے لیے طلبا کو پریشانیوں کا سامنا - Girl Students Face Problem

گیا کے سرکاری اور اقلیتی اسکولوں میں 11 ویں اور 12 ویں داخلہ کے لیے طلبا پریشان ہیں۔ یہ وہ طلبہ ہیں جنہوں نے دوسرے اسکولوں بہار بورڈ اور سی بی ایس سی سے دسویں پاس کی ہے۔ محکمہ تعلیم کی ہدایت ہے کہ پہلے اسکول اپنے طلبہ ' انٹرنل طلبہ ' کا داخلہ لیں اور باہری اسکولوں کے طلبہ کے داخلے کے لیے محکمہ تعلیم کے ضلع ایجوکیشن افسر سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 24, 2024, 6:49 PM IST

سرکاری اسکولوں میں انٹر میں داخلہ کے لیے طلبا کو پریشانیوں کا سامنا
سرکاری اسکولوں میں انٹر میں داخلہ کے لیے طلبا کو پریشانیوں کا سامنا (etv bharat)

گیا: بہار کے سرکاری اسکولوں بالخصوص اقلیتی اسکولوں میں انٹر گیارہویں اور با رہویں جماعت میں طلباء کو داخلہ کے لیے پریشانیوں کا سامناہے۔ حالانکہ یہ ان طلباء کے لیے درد سر ہے جنہوں نے بورڈ (میٹرک) تک کی تعلیم دوسرے اسکولوں سے حاصل کی ہے۔ اسکولوں کے لئے پریشانی اور مسلہ یہ ہے کہ وہ محکمہ تعلیم کی ہدایت کی روشنی میں دوسرے اسکولوں کے طلبہ کا براہ راست داخلہ نہیں لے سکتے ہیں، انہیں داخلہ لینے کے لیے محکمہ تعلیم کے ضلع افسر کے اجازت نامہ کی ضرورت ہوگی۔

سرکاری اسکولوں میں انٹر میں داخلہ کے لیے طلبا کو پریشانیوں کا سامنا (etv bharat)

وہ اپنے ہی اسکول کے طلبہ جو میٹرک امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہیں کا داخلہ انٹر میں لینا ہے۔ دوسرے طلباء کے داخلہ کے لیے محکمہ تعلیم اُنہیں فہرست دے گی تب جاکر وہ داخلہ لیں گے۔ محکمہ تعلیم کے پیچیدہ پروسیس کی وجہ سے انٹر کے طلباء کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ دراصل رواں تعلیمی سیشن میں بہار حکومت کے محکمہ تعلیم نے کالجوں سے انٹر کی تعلیم کے سلسلے کو بند کردیا ہے۔

طلبہ پلس ٹو ہائی اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ اس کے تحت گیا شہر کے مرزا غالب کالج، گیا کالج، انوگرہ کالج، جگجیون کالج سمیت دیگر کالجوں میں انٹر میں داخلہ بند ہوگیا ہے۔ کالجوں میں انٹر کی تعلیم بند ہونے کی وجہ سے 25 ہزار کے قریب اب طلبہ کے داخلہ کا مسئلہ ہے۔ مرزا غالب کالج میں تینوں مضمون 'سائنس آرٹس اور کامرس'میں قریب چار ہزار طلبہ کو پڑھانے کی اجازت تھی، لیکن اب ان سبھی طلبہ کو پلس ٹو ہائی اسکولوں میں پڑھنا ہوگا۔ چونکہ سب ہی سرپرستوں کی اتنی اقتصادی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ نجی اسکولوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ گیا کےچھوٹے اسکولوں میں بھی سالانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی فیس ہے۔ گیا سے قریب 60 ہزار طلبہ اور طالبات نے اس برس میٹرک کا امتحان دیا تھا جبکہ اتنی ہی تعداد سی بی ایس سی طلبہ کی تھی۔

مسلم طلبہ کو زیادہ پریشانی ہیں

گیا شہر میں مرزاغالب کالج کے علاوہ ہادی ہاشمی سنیئر سکنڈری پلس ٹو اسکول، قاسمی پلس ٹو ہائی اسکول اور ایک اردو گرلس ہائی اسکول ہے۔ ان اسکولوں میں انٹر تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ اقلیتی اسکولوں میں کامرس مضمون نہیں ہے۔ ہادی ہاشمی اسکول میں دو مضمون میں 250 نشست ہے۔ اسی طرح دوسرے اقلیتی اسکولوں کا بھی حال ہے۔

مسلم طلباء وطالبات زیادہ تر انہی اسکولوں کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ شہر میں ہیں اور یہاں اسکول کے علاوہ شہر میں رہکر دوسری تیاری بھی کرسکتے ہیں۔ ہادی ہاشمی اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر نفاست کریم کہتے ہیں۔ اول یہ کہ محکمہ تعلیم کی یہ ہدایت اقلیتی کردار والے اداروں پر نافذ نہیں ہوتی کیونکہ اقلیتی اداروں کو خود داخلہ لینے کے اختیارات حاصل ہیں لیکن چونکہ محکمہ تعلیم کی ہدایت میں اب تک واضح نہیں کیا گیا ہے کہ حتمی طور پر کیا کرنا ہے اسلیے انہیں بھی داخلہ لینے میں مشکل ہورہی ہے۔

ہادی ہاشمی میں زیادہ پریشانی یہ ہورہی ہے کہ سی بی ایس سی سے دسویں پاس طلبا بھی یہاں داخلہ لینے پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں ہدایت کی روشنی میں ابھی داخلہ نہیں دیا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس لئے حکومت کو اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ پلس ٹو اسکولوں میں سبھی سبجیکٹ کی نشستوں میں اضافے، اساتذہ کی تعداد بڑھائے، بغیر انتظام کیے کالجوں سے گیارہویں اور بارہویں ختم کرنا مناسب قدم نہیں ہے۔

تعلیمی حق کا بھی ہے معاملہ:

ماہرین کا حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض بھی ہے۔ کیونکہ انکا ماننا ہے کہ کوئی اسکول کسی طالب علم کو یہ زبردستی کیسے کرسکتا ہے کہ وہ اسی اسکول میں پڑھے؟ طلبا کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک اسکول سے دوسرے اسکولوں میں داخلہ لے سکتے ہیں، کوئی بھی تجربہ تبھی کامیاب ہوتا ہے جب اسکا متبادل تیار ہو۔ اسکولوں میں داخلے کے لیے درخواستیں موصول بھی ہورہی ہیں باوجود کہ کسی اسکول میں داخلہ مکمل نہیں ہوا ہے کیونکہ جس اسکول سے طلبہ نے دسویں کی ہے ان میں زیادہ تر نے داخلہ نہیں لیا ہے۔

ان کی جگہ پر دوسرے طلبہ کا داخلہ نہیں لیا گیا ہے کیونکہ محکمہ تعلیم کی دوسری ہدایت نہیں آئی ہے۔ اب ایسی صورت میں اسکول تذبذب اور کشمکش میں ہیں کہ وہ کیا کریں ۔ حالانکہ جب اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت اردو کے نمائندہ نے ضلع ایجوکیشن افسر اوم پرکاش کے دفتر میں پہنچ کر اس حوالے سوال کیا تو انہوں نے پہلے بتایا کہ انکے پاس ابھی رپورٹ نہیں ہے کہ کتنے طلبہ کا داخلہ ہوا ہے اورکس طرح دوسرے اسکولوں کے طلبا کوداخلہ دلانےکے قواعد اپنائے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:گیا: مرزاغالب کالج کی گورننگ باڈی میں تبدیلی اور عہدوں کی تقسیم - Mirza Ghalib College Gaya

انہوں نے کہاکہ لیکن جب ان سے کہا گیا کہ وہ متعلقہ سرکاری اہلکار سے رپورٹ لیکر واقف کرائیں تو انہوں نے جواب میں کہاکہ ابھی انکی میٹنگ ویڈیو کانفرنس کے توسط سے ہے اسلیے وہ ابھی کچھ نہیں بتاسکتے۔

گیا: بہار کے سرکاری اسکولوں بالخصوص اقلیتی اسکولوں میں انٹر گیارہویں اور با رہویں جماعت میں طلباء کو داخلہ کے لیے پریشانیوں کا سامناہے۔ حالانکہ یہ ان طلباء کے لیے درد سر ہے جنہوں نے بورڈ (میٹرک) تک کی تعلیم دوسرے اسکولوں سے حاصل کی ہے۔ اسکولوں کے لئے پریشانی اور مسلہ یہ ہے کہ وہ محکمہ تعلیم کی ہدایت کی روشنی میں دوسرے اسکولوں کے طلبہ کا براہ راست داخلہ نہیں لے سکتے ہیں، انہیں داخلہ لینے کے لیے محکمہ تعلیم کے ضلع افسر کے اجازت نامہ کی ضرورت ہوگی۔

سرکاری اسکولوں میں انٹر میں داخلہ کے لیے طلبا کو پریشانیوں کا سامنا (etv bharat)

وہ اپنے ہی اسکول کے طلبہ جو میٹرک امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہیں کا داخلہ انٹر میں لینا ہے۔ دوسرے طلباء کے داخلہ کے لیے محکمہ تعلیم اُنہیں فہرست دے گی تب جاکر وہ داخلہ لیں گے۔ محکمہ تعلیم کے پیچیدہ پروسیس کی وجہ سے انٹر کے طلباء کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ دراصل رواں تعلیمی سیشن میں بہار حکومت کے محکمہ تعلیم نے کالجوں سے انٹر کی تعلیم کے سلسلے کو بند کردیا ہے۔

طلبہ پلس ٹو ہائی اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ اس کے تحت گیا شہر کے مرزا غالب کالج، گیا کالج، انوگرہ کالج، جگجیون کالج سمیت دیگر کالجوں میں انٹر میں داخلہ بند ہوگیا ہے۔ کالجوں میں انٹر کی تعلیم بند ہونے کی وجہ سے 25 ہزار کے قریب اب طلبہ کے داخلہ کا مسئلہ ہے۔ مرزا غالب کالج میں تینوں مضمون 'سائنس آرٹس اور کامرس'میں قریب چار ہزار طلبہ کو پڑھانے کی اجازت تھی، لیکن اب ان سبھی طلبہ کو پلس ٹو ہائی اسکولوں میں پڑھنا ہوگا۔ چونکہ سب ہی سرپرستوں کی اتنی اقتصادی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ نجی اسکولوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ گیا کےچھوٹے اسکولوں میں بھی سالانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی فیس ہے۔ گیا سے قریب 60 ہزار طلبہ اور طالبات نے اس برس میٹرک کا امتحان دیا تھا جبکہ اتنی ہی تعداد سی بی ایس سی طلبہ کی تھی۔

مسلم طلبہ کو زیادہ پریشانی ہیں

گیا شہر میں مرزاغالب کالج کے علاوہ ہادی ہاشمی سنیئر سکنڈری پلس ٹو اسکول، قاسمی پلس ٹو ہائی اسکول اور ایک اردو گرلس ہائی اسکول ہے۔ ان اسکولوں میں انٹر تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ اقلیتی اسکولوں میں کامرس مضمون نہیں ہے۔ ہادی ہاشمی اسکول میں دو مضمون میں 250 نشست ہے۔ اسی طرح دوسرے اقلیتی اسکولوں کا بھی حال ہے۔

مسلم طلباء وطالبات زیادہ تر انہی اسکولوں کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ شہر میں ہیں اور یہاں اسکول کے علاوہ شہر میں رہکر دوسری تیاری بھی کرسکتے ہیں۔ ہادی ہاشمی اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر نفاست کریم کہتے ہیں۔ اول یہ کہ محکمہ تعلیم کی یہ ہدایت اقلیتی کردار والے اداروں پر نافذ نہیں ہوتی کیونکہ اقلیتی اداروں کو خود داخلہ لینے کے اختیارات حاصل ہیں لیکن چونکہ محکمہ تعلیم کی ہدایت میں اب تک واضح نہیں کیا گیا ہے کہ حتمی طور پر کیا کرنا ہے اسلیے انہیں بھی داخلہ لینے میں مشکل ہورہی ہے۔

ہادی ہاشمی میں زیادہ پریشانی یہ ہورہی ہے کہ سی بی ایس سی سے دسویں پاس طلبا بھی یہاں داخلہ لینے پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں ہدایت کی روشنی میں ابھی داخلہ نہیں دیا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس لئے حکومت کو اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ پلس ٹو اسکولوں میں سبھی سبجیکٹ کی نشستوں میں اضافے، اساتذہ کی تعداد بڑھائے، بغیر انتظام کیے کالجوں سے گیارہویں اور بارہویں ختم کرنا مناسب قدم نہیں ہے۔

تعلیمی حق کا بھی ہے معاملہ:

ماہرین کا حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض بھی ہے۔ کیونکہ انکا ماننا ہے کہ کوئی اسکول کسی طالب علم کو یہ زبردستی کیسے کرسکتا ہے کہ وہ اسی اسکول میں پڑھے؟ طلبا کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک اسکول سے دوسرے اسکولوں میں داخلہ لے سکتے ہیں، کوئی بھی تجربہ تبھی کامیاب ہوتا ہے جب اسکا متبادل تیار ہو۔ اسکولوں میں داخلے کے لیے درخواستیں موصول بھی ہورہی ہیں باوجود کہ کسی اسکول میں داخلہ مکمل نہیں ہوا ہے کیونکہ جس اسکول سے طلبہ نے دسویں کی ہے ان میں زیادہ تر نے داخلہ نہیں لیا ہے۔

ان کی جگہ پر دوسرے طلبہ کا داخلہ نہیں لیا گیا ہے کیونکہ محکمہ تعلیم کی دوسری ہدایت نہیں آئی ہے۔ اب ایسی صورت میں اسکول تذبذب اور کشمکش میں ہیں کہ وہ کیا کریں ۔ حالانکہ جب اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت اردو کے نمائندہ نے ضلع ایجوکیشن افسر اوم پرکاش کے دفتر میں پہنچ کر اس حوالے سوال کیا تو انہوں نے پہلے بتایا کہ انکے پاس ابھی رپورٹ نہیں ہے کہ کتنے طلبہ کا داخلہ ہوا ہے اورکس طرح دوسرے اسکولوں کے طلبا کوداخلہ دلانےکے قواعد اپنائے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:گیا: مرزاغالب کالج کی گورننگ باڈی میں تبدیلی اور عہدوں کی تقسیم - Mirza Ghalib College Gaya

انہوں نے کہاکہ لیکن جب ان سے کہا گیا کہ وہ متعلقہ سرکاری اہلکار سے رپورٹ لیکر واقف کرائیں تو انہوں نے جواب میں کہاکہ ابھی انکی میٹنگ ویڈیو کانفرنس کے توسط سے ہے اسلیے وہ ابھی کچھ نہیں بتاسکتے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.