ETV Bharat / state

گیا: گمنام مجاہد آزادی کریمن شاہ کے تاریخی کارنامے

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 20, 2024, 1:03 PM IST

Karim Shah Mazar In Gayaضلع گیا کے بانکے بازار میں سیف گنج نام کا ایک گاوں میں کریمن شاہ کا مزار واقع ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انگریزوں سے جنگ کی تھی۔ جنگ آزادی کے لیے کولہ سردار کے ساتھ مل کر فوج تیار کی تھی۔ انگریزوں سے لڑتے ہوئے وہ شہید ہوگئے تھے۔

کریمن شاہ نع سیف گنج گاوں میں انگریزوں سے کی تھی جنگ
کریمن شاہ نع سیف گنج گاوں میں انگریزوں سے کی تھی جنگ
کریمن شاہ نع سیف گنج گاوں میں انگریزوں سے کی تھی جنگ

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں کئی گاؤں ایسے ہیں جو نہ صرف پرانے ہیں بلکہ وہ تاریخی پس منظر کے لحاظ سے بھی اہم ہیں۔ انہی میں ایک ضلع کے بانکے بازار بلاک علاقے کا سیف گنج گاؤں بھی ہے۔ یہاں اس گاؤں میں حضرت کریمن شہید شاہ کا مزار ہے۔ کریمن شاہ شہید کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک صوفی صفت ہونے کے ساتھ تلوار بازی کے فن میں بھی ماہر تھے۔

1747 عیسوی میں گیا کے بانکے بازار کے سیف گنج گاؤں کے کولہ سردار کو ساتھ لیکر انہوں نے انگریزوں کے ساتھ جنگ کی اور دوران جنگ ہی یہ شہید ہوئے۔ سیف گنج گاؤں آج بھی کریمن شاہ کی بہادری دلیری اور شہادت کے ساتھ ان کی بزرگی کو یاد کرتا ہے۔ گاؤں میں ہر کوئی بڑی عقیدت رکھتا ہے خاص طور پر انگریزوں کے خلاف ان کی لڑائی اور بہادری کے قصے پورے علاقے میں مشہور ہیں۔ ہر کوئی ان سے عقیدت رکھتا ہے۔

حالانکہ کریمن شاہ کے تعلق سے مسلم مورخین نے زیادہ کچھ ذکر نہیں کیا ہے، البتہ علاقے کے دانشوروں اور محقیقن وغیرہ نے ضرور اپنی تحقیق کچھ لکھا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں کا نام ' سیف گنج ' انہی کی بہادری دلیری اور ہمت و جرات سے منسلک ہے ۔ چونکہ وہ سیف ' تلوار' کے ماہر تھے اور سیف گنج گاوں میں اسلحے تیار ہوتے تھے۔ اس جگہ کو لوگ 'سیف گاؤں' کہتے تھے جو بعد میں سیف گنج میں بدل گیا۔

سیف گنج کی تاریخ ہے پرانی
ضلع گیا میں کئی گاؤں ایسے ہیں جو نا صرف کافی پرانے ہیں بلکہ وہ تاریخی پس منظر کے اعتبار سے بھی اہم ہیں۔ضلع کے بانکے بازار بلاک علاقے کا سیف گنج گاؤں بھی اُنہی میں ایک ہے ۔ جس کی تاریخ اور قدامت صدیوں پرانی ہے۔ سیف گنج گاؤں برسوں پرانا ہے اور اس گاؤں کے نام کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ گاؤں میں ایک قلعہ ہوتا تھا جو اب بھی موجود ہے۔ تاہم وہ اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے، بلکہ وہ پوری طرح سے تباہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کے کچھ نشانات اب بھی باقی ہیں۔ چند برسوں قبل محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم یہاں تحقیات کے لیے پہنچی تھی اور تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ یہ جگہ کافی قدیم ہے اور مہاتما بدھ کے دور کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ گاؤں تقریباً 2500 سال پرانا ہے۔

یہاں کے قلعے کے بارے میں مقامی لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ 200 سال پہلے تک آباد تھا۔ یہاں اسلحے کی ایک مارکیٹ تھی۔ لوگ یہاں دور دراز سے کاروباری مقاصد کے لیے آتے تھے۔ قلعہ کا سردار' کولہ سردار ' کے نام سے مشہور تھا اور عوام کے درمیان مقبول تھا لیکن اسی دوران انگریز بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ اسلحے کی بازار ہونے کی اطلاع پاکر انگریز قلعہ میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن اسی دوران کریمن علی نام کے ایک جنگجو یہاں آئے اور کولہ سردار سے ملے۔

آزادی پسندوں کو انہوں نے اکٹھا کیا اور انگریزوں سے جنگ کا اعلان کردیا۔ اس دوران پورے قلعے کی نگہبانی انہوں نے اپنے ماتحت لے لی۔ ان کی ٹیم میں کئی محافظ تھے جن میں خاص کر مشرق میں بھکتو مانجھی، شمال میں چولھن گوپ اور مغرب میں ملہن ڈانگ شامل تھے۔ قلعہ میں بہادر جنگجوؤں کی خفیہ میٹنگ جاری تھی، تبھی انگریزوں نے ان پر حملہ کردیا، پہلے مشرقی سمت میں موجود سپاہی بھکتو مانجھی سے لڑائی ہوئی، جس میں وہ شہید ہو گئے، اسی طرح ہر سپاہی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ آخر کار انگریز قلعہ میں داخل ہوئے جہاں انکا سامنا کریمن علی شاہ سے ہوا۔

کریمن علی نے اکیلے ہی سینکڑوں انگریزوں کو قتل کیا اور انگریزوں کو باہر کا راستہ دیکھایا لیکن دوبارہ انگریز پھر آئےاور جنگ ہوئی حالانکہ جنگ کے دوران کریمن علی بھی انگریزوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ انگریزوں نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ کو تباہ کر دیا۔ اسی قلعے پر کریمن علی کی قبر ہے جہاں ہر سال عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے عقیدت کے اظہار کے لیے آتے ہیں۔

دلچسپی کہانی ہے گاوں کی
اس سلسلے میں گاؤں کے رہنے والے شیو شنکر سنگھ کا کہنا ہے کہ سیف گنج گاؤں کافی قدیم ہے اور اس کے نام رکھنے کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ انگریزوں کے دور سے پہلے یہاں واقع قلعے پر بازار ہوا کرتا تھا اور یہاں جدید اسلحہ تیار کیا جاتا تھا۔ جدید ہتھیاروں میں نیزہ، تلوار، گڈانسا اور سیف نامی اسلحہ ' تلوار ' بنائے جاتے تھے اور گیا اور پٹنہ کے علاوہ یہ اسلحہ آج کے چھتیس گڑھ کے امبیکاپور اور جھارکھنڈ کے مختلف مقامات پر جاتے تھے۔ یہی نہیں یہاں کے لوگ ان اسلحوں کے استعمال میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ محفوظ اور خاص اسلحوں کی مناسبت سے اس گاؤں کا نام سیف نگر پڑا لیکن مغل دور میں اس کا نام بدل کر سیف گنج رکھ دیا گیا اور آج بھی یہ گاؤں سیف گنج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج اس گاؤں کی آبادی 5 ہزار سے زیادہ ہے اور یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ گاؤں کے کسان نامیاتی کاشتکاری کرتے ہیں اور اس گاؤں کو بھی نامیاتی گاؤں قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:انجمن ترقی اردو بہار کے زیر اہتمام اردو بیداری کانفرنس منعقد ہوئی

موجودہ وقت میں گاوں سیف گنج میں مسلم آبادی نہیں ہے۔ صرف ایک گھر کریمن شاہ کی مزار کی دیکھ بھال کے لئے ہے حالانکہ اس علاقہ میں مسلم اکثریتی آبادی والے درجنوں گاؤں ہیں۔ تا ہم اس گاؤں میں مسلم آبادی نہیں ہے۔ کریمن شاہ شہید کے آستانے سے سبھی کو عقیدت ہے اور ہندوبھی بلا تفریق اس مزار پر آکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

کریمن شاہ نع سیف گنج گاوں میں انگریزوں سے کی تھی جنگ

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں کئی گاؤں ایسے ہیں جو نہ صرف پرانے ہیں بلکہ وہ تاریخی پس منظر کے لحاظ سے بھی اہم ہیں۔ انہی میں ایک ضلع کے بانکے بازار بلاک علاقے کا سیف گنج گاؤں بھی ہے۔ یہاں اس گاؤں میں حضرت کریمن شہید شاہ کا مزار ہے۔ کریمن شاہ شہید کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک صوفی صفت ہونے کے ساتھ تلوار بازی کے فن میں بھی ماہر تھے۔

1747 عیسوی میں گیا کے بانکے بازار کے سیف گنج گاؤں کے کولہ سردار کو ساتھ لیکر انہوں نے انگریزوں کے ساتھ جنگ کی اور دوران جنگ ہی یہ شہید ہوئے۔ سیف گنج گاؤں آج بھی کریمن شاہ کی بہادری دلیری اور شہادت کے ساتھ ان کی بزرگی کو یاد کرتا ہے۔ گاؤں میں ہر کوئی بڑی عقیدت رکھتا ہے خاص طور پر انگریزوں کے خلاف ان کی لڑائی اور بہادری کے قصے پورے علاقے میں مشہور ہیں۔ ہر کوئی ان سے عقیدت رکھتا ہے۔

حالانکہ کریمن شاہ کے تعلق سے مسلم مورخین نے زیادہ کچھ ذکر نہیں کیا ہے، البتہ علاقے کے دانشوروں اور محقیقن وغیرہ نے ضرور اپنی تحقیق کچھ لکھا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں کا نام ' سیف گنج ' انہی کی بہادری دلیری اور ہمت و جرات سے منسلک ہے ۔ چونکہ وہ سیف ' تلوار' کے ماہر تھے اور سیف گنج گاوں میں اسلحے تیار ہوتے تھے۔ اس جگہ کو لوگ 'سیف گاؤں' کہتے تھے جو بعد میں سیف گنج میں بدل گیا۔

سیف گنج کی تاریخ ہے پرانی
ضلع گیا میں کئی گاؤں ایسے ہیں جو نا صرف کافی پرانے ہیں بلکہ وہ تاریخی پس منظر کے اعتبار سے بھی اہم ہیں۔ضلع کے بانکے بازار بلاک علاقے کا سیف گنج گاؤں بھی اُنہی میں ایک ہے ۔ جس کی تاریخ اور قدامت صدیوں پرانی ہے۔ سیف گنج گاؤں برسوں پرانا ہے اور اس گاؤں کے نام کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ گاؤں میں ایک قلعہ ہوتا تھا جو اب بھی موجود ہے۔ تاہم وہ اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے، بلکہ وہ پوری طرح سے تباہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کے کچھ نشانات اب بھی باقی ہیں۔ چند برسوں قبل محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم یہاں تحقیات کے لیے پہنچی تھی اور تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ یہ جگہ کافی قدیم ہے اور مہاتما بدھ کے دور کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ گاؤں تقریباً 2500 سال پرانا ہے۔

یہاں کے قلعے کے بارے میں مقامی لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ 200 سال پہلے تک آباد تھا۔ یہاں اسلحے کی ایک مارکیٹ تھی۔ لوگ یہاں دور دراز سے کاروباری مقاصد کے لیے آتے تھے۔ قلعہ کا سردار' کولہ سردار ' کے نام سے مشہور تھا اور عوام کے درمیان مقبول تھا لیکن اسی دوران انگریز بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ اسلحے کی بازار ہونے کی اطلاع پاکر انگریز قلعہ میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن اسی دوران کریمن علی نام کے ایک جنگجو یہاں آئے اور کولہ سردار سے ملے۔

آزادی پسندوں کو انہوں نے اکٹھا کیا اور انگریزوں سے جنگ کا اعلان کردیا۔ اس دوران پورے قلعے کی نگہبانی انہوں نے اپنے ماتحت لے لی۔ ان کی ٹیم میں کئی محافظ تھے جن میں خاص کر مشرق میں بھکتو مانجھی، شمال میں چولھن گوپ اور مغرب میں ملہن ڈانگ شامل تھے۔ قلعہ میں بہادر جنگجوؤں کی خفیہ میٹنگ جاری تھی، تبھی انگریزوں نے ان پر حملہ کردیا، پہلے مشرقی سمت میں موجود سپاہی بھکتو مانجھی سے لڑائی ہوئی، جس میں وہ شہید ہو گئے، اسی طرح ہر سپاہی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ آخر کار انگریز قلعہ میں داخل ہوئے جہاں انکا سامنا کریمن علی شاہ سے ہوا۔

کریمن علی نے اکیلے ہی سینکڑوں انگریزوں کو قتل کیا اور انگریزوں کو باہر کا راستہ دیکھایا لیکن دوبارہ انگریز پھر آئےاور جنگ ہوئی حالانکہ جنگ کے دوران کریمن علی بھی انگریزوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ انگریزوں نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ کو تباہ کر دیا۔ اسی قلعے پر کریمن علی کی قبر ہے جہاں ہر سال عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے عقیدت کے اظہار کے لیے آتے ہیں۔

دلچسپی کہانی ہے گاوں کی
اس سلسلے میں گاؤں کے رہنے والے شیو شنکر سنگھ کا کہنا ہے کہ سیف گنج گاؤں کافی قدیم ہے اور اس کے نام رکھنے کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ انگریزوں کے دور سے پہلے یہاں واقع قلعے پر بازار ہوا کرتا تھا اور یہاں جدید اسلحہ تیار کیا جاتا تھا۔ جدید ہتھیاروں میں نیزہ، تلوار، گڈانسا اور سیف نامی اسلحہ ' تلوار ' بنائے جاتے تھے اور گیا اور پٹنہ کے علاوہ یہ اسلحہ آج کے چھتیس گڑھ کے امبیکاپور اور جھارکھنڈ کے مختلف مقامات پر جاتے تھے۔ یہی نہیں یہاں کے لوگ ان اسلحوں کے استعمال میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ محفوظ اور خاص اسلحوں کی مناسبت سے اس گاؤں کا نام سیف نگر پڑا لیکن مغل دور میں اس کا نام بدل کر سیف گنج رکھ دیا گیا اور آج بھی یہ گاؤں سیف گنج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج اس گاؤں کی آبادی 5 ہزار سے زیادہ ہے اور یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ گاؤں کے کسان نامیاتی کاشتکاری کرتے ہیں اور اس گاؤں کو بھی نامیاتی گاؤں قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:انجمن ترقی اردو بہار کے زیر اہتمام اردو بیداری کانفرنس منعقد ہوئی

موجودہ وقت میں گاوں سیف گنج میں مسلم آبادی نہیں ہے۔ صرف ایک گھر کریمن شاہ کی مزار کی دیکھ بھال کے لئے ہے حالانکہ اس علاقہ میں مسلم اکثریتی آبادی والے درجنوں گاؤں ہیں۔ تا ہم اس گاؤں میں مسلم آبادی نہیں ہے۔ کریمن شاہ شہید کے آستانے سے سبھی کو عقیدت ہے اور ہندوبھی بلا تفریق اس مزار پر آکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.