گلبرگہ: ریاست کرناٹک میں اردو اکاڈمی کی تشکیل اردو والوں کے ساتھ حکومت کا مذاق ہے۔ اس سلسلہ میں عزیز اللہ سرمست نے مزید کہا کہ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اردو تہذیب و ثقافت علم و ادب سے مالا مال گلبرگہ کو سابق میں کرناٹک اردو اکاڈمی کی چیئرمین شپ دی جاتی تھی لیکن اس بار صرف کوآپٹ ممبر شپ دی گئی ہے۔ یہ گلبرگہ کے تمام ادبا و شعرا کی کھلی اہانت کرنے کے مترادف ہے۔ گلبرگہ کو اکاڈمی کی چیئرمین شپ یا نامزد ممبر شپ کو نظر انداز کرکے کوآپٹ کرنا خوش کرنے کے لیے لالی پاپ یا چاکلیٹ دینے کے مترادف ہے۔ احتجاجاً اس حقیر پیشکش کو مسترد کیا جانا چاہیے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گلبرگہ میں اکاڈمی کا کوئی پروگرام منعقد ہونے نہیں دیا جانا چاہیے۔ سابق میں ایسا ہوا تھا اور آئندہ بھی ایسا احتجاج گلبرگہ میں جاری رہنا چاہیے۔ کرناٹک اردو اکاڈمی کی تشکیل میں گلبرگہ کے وقار کو مجروح کیے جانے سے گلبرگہ کے ادبا و شعرا اردو کارکنان میں جو زبردست ناراضگی پائی جارہی ہے وہ اکاڈمی کی کوآپٹ ممبر شپ دینے سے دور نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:
خلیل مامون نے اردو اکیڈمی کی تشکیل میں اردو کے ساتھ ناانصافی کو منظر عام پر لایا
عزیز اللہ سرمست نے مزید کہا ہے کہ کرناٹک اردو اکاڈمی کی تاریخ میں پہلی بار اکاڈمی کا ایک ایسا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے جس کا اردو ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کرناٹک اردو اکاڈمی کی تشکیل کے بعد جو ویڈیو منظر عام پر آیا، اس میں اکاڈمی کے نو نامزد ممبران چیئرمین کی تعریف و توصیف میں یوں رطب اللسان ہیں کہ گویا ان کے علاوہ کوئی اور قابل شخص کرناٹک اردو اکاڈمی کا چیئرمین بننے کے لائق کرناٹک میں موجود نہیں ہے۔ متعلقہ ذمہ داران کرناٹک اردو اکاڈمی کا چیئرمین نامزد کرنے سے پہلے کرناٹک اردو اکاڈمی کی جانب سے کرناٹک کے اردو قلمکاروں کی جو ڈائری شائع ہوئی ہے اس میں ان صاحب کا تعارف پڑھ لینا چاہیے تھا جنہیں اکاڈمی کا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے۔ حیرت بلکہ شرمندگی کی بات ہے کہ جو ادبا و شعرا وصحافی کرناٹک اردو اکاڈمی کی چیئرمین شپ کے دعویدار تھے۔ اب وہ اکاڈمی کی ممبر شپ قبول کرکے خوش ہیں۔
لوک سبھا انتخابات میں ریاست کے مسلمان کانگریس کو ہی ووٹ دینے والے ہیں لیکن مسلم ووٹوں کے نام نہاد سوداگروں کی منہ بھرائی کرنے سے کانگریس کے لیے زیادہ بہتر ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دے۔ ملک کے موجودہ حالات میں کانگریس کو ووٹ دینا مسلمانوں کی سیاسی مجبوری ہے لیکن اس مجبوری کی سیاسی سودے بازی نہیں ہونا چاہیے۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے درمیانی ایجنٹوں پر تکیہ کرنے کے بجائے پچھلی بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کانگریس حکومت کو سنجیدگی سے کام لینا چاہیے۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے مسلمانوں سے 2 بی ریزرویشن اور حجاب سے متعلق اور دیگر جو اہم وعدے کیے تھے انہیں بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچنے کے خدشہ سے سرد بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا بی جے پی کے خلاف کانگریس کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ ہوا؟ اب جب کہ کرناٹک اردو اکاڈمی کی تشکیل نو ہو چکی ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ چیئرمین، کتنے ممبران اور ان کے سب ایجنٹ اردو کی ترقی و ترویج کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور کتنے اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے ہیں۔