جونپور: اردو محبت و الفت کی زبان ہے جسے کسی ایک مذہب و ذات سے نہیں منسلک کیا جا سکتا ہے ارود زبان نے محبت کے ترانوں کو پروان چڑھایا۔ اردو ہندوستان کی زبان ہے جو یہیں پلی بڑھی اور زمانہ دراز سے بولی و سنی جاتی ہے مگر موجودہ دور میں اردو زبان و ادب کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنایا جا رہا ہے جس سے اردو کو کافی نقصان پہونچ رہا ہے ایسے ہی تمام سوالات کے ساتھ ای ٹی وی بھارت اردو نے محمد حسن پی جی کالج جونپور شعبہ اردو کی ہیڈ ڈاکٹر عالمینہ پروین سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عالمینہ پروین نے کہا کہ آج اردو کا مقام کم ہو رہا ہے جس کے لیے ہم سب ذمہدار ہیں انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو زندہ و باقی رکھنے کے لیے ہماری جو روز مرہ کی بول چال ہے اس کو اردو میں کرکے زندہ رکھنا ہوگا آج مغربیت کلچر حاوی ہونے کی وجہ سے ہماری زندگیوں سے اردو نکل رہی ہے جس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج میں جس کالج میں استاد ہوں کبھی طالبہ تھی آج جب اسٹاف کے ساتھ بیٹھتی ہوں تو وہ بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اردو کی بدولت ہے اور ساتھ ہی میں اپنے بچوں کو ترغیب دلاتی ہوں کہ اردو کی بقا و نشونما کے لیے آپ سب کوشش کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ اردو کسی مذہب کی ذاتی زبان نہیں ہے یہ سب کی زبان ہے اردو کو محدود کرنا اس کے ساتھ ناانصافی ہے، انہوں نے کہا کہ جونپور کے جو شعراء و ادباء رہے ہیں میں ان کی ذات کو سلام کرتی ہوں جب بھی جونپور کی شاعری کا ذکر ہوتا ہے تو ان کی شخصیات کا ذکر ضرور کرتی ہوں اور مجھے ان کے اشعار پڑھنے کے بعد ایک جوش و جذبہ ملتا ہے۔
پروفیسر عالوینہ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ جونپور کے شعراء و ادباء کے کلام و مضامین کو نصاب میں شامل کیا جائے اور جب ہم لیکچر دیتے ہیں تو بچوں کو جونپور شعراء کے بارے میں ضرور بتاتے ہیں تاکہ بچوں کو اس سے حوصلہ ملے، انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں تعلیم ذریعے معاش ہوچکی ہے اس لیے فارغین چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان کی نوکری لگ جائے میں انہوں پیغام دیتی ہوں کہ وہ اردو زبان کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں۔