گیا: ریاست بہار کےضلع گیا کا شیر گھاٹی شہر بزرگوں ولیوں کا مسکن رہا ہے۔ پائے کے بزرگوں میں حضرت مولانا عبدالرحمن علیہ الرحمہ کا بھی شمار ہے۔ ان کی تاریخ عہد مغلیہ کی آخری بادشاہت کے دور سے ملتی ہے۔ مولانا عبد الرحمٰن علیہ الرحمہ کے تعلق سے خانقاہ منعمیہ رام ساگر گیا کے رکن سید عطا فضیل احمد بتاتے ہیں کہ مولانا عبد الرحمن علیہ الرحمہ حضرت عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد تھے اور اپنے ماموں حضرت غلام غوث رحمت اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ شیر گھاٹی ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 30 کلومیٹر پر واقع ہے اور یہ ضلع گیا کا سب سے بڑا سب ڈویژن بھی ہے۔ برسوں سے اس سب ڈویژن کو ضلع بنانے کی مانگ بھی کی جا رہی ہے۔ شیر گھاٹی جو شیر شاہ سوری اور انگریزی حکومت کے دور اقتدار میں بھی فوج اور افسران کا ایک اہم پڑاؤ اور اڈہ رہا ہے۔ کیونکہ یہ قومی شاہراہ دو دلی کولکاتا روڈ پر واقع ہے۔
شیر گھاٹی کی خاصیت یہ ہے یہاں ولیوں کے مزارات بھی ہیں جس سے عقیدت سبھی طبقے کے لوگوں کو ہے۔ یہاں قمر علی سلطان علی کا بھی مقبرہ ہے اور اس مقبرے پر ہر دن عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اسی طرح مولانا عبدالرحمن علیہ الرحمہ کے بھی آستانے پر عقیدت مند آتے ہیں۔ ان کے آستانے پر آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد پڑھنے لکھنے والوں کی بھی ہوتی ہے کیونکہ ماننا ہے کہ آستانے پر تعلیم حاصل کرنے والے کچھ دیر وقت گزاریں تو ایک الگ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنی تعلیم کی رکاوٹوں سے دور ہوجاتےہیں۔ مولانا عبد الرحمٰن علیہ الرحمہ نے اپنی حیات میں تعلیم پر زیادہ توجہ دی اور وہ خود درس و تدریس سے وابستہ رہے اور شیر گھاٹی میں باضابطہ اُنہوں نے کئی محلوں میں مسجد بنوائی۔ شیر گھاٹی کے معروف مؤرخ حافظ رکن الدین بتاتے ہیں کہ مولانا عبد الرحمٰن بڑے جید عالم دین تو ہیں۔ ساتھ ہی بڑے پائے کے بزرگ بھی ہیں۔ شیر گھاٹی میں اُن سے بڑا کوئی دوسرا بزرگ نہیں، ویسے تو شیر گھاٹی ولیوں کا مسکن رہا ہے۔ حضرت شیر گھاٹی میں رہے اورشیر گھاٹی میں ہی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا۔ یہاں زیادہ تر قاضی محلے میں رہا کرتے تھے۔ حجرہ کے نام سے وہ آج بھی جگہ مشہور ہے۔
انہوں نے کہاکہ مولانا عبدالرحمن صاحب کے وفات کی صحیح تاریخ تو نہیں معلوم ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ 1255ھ کے قریب انکی وفات ہوئی۔ مولانا عبدالرحمن صاحب نے صرف قاضی محلے میں نہیں بلکہ لودھی شہید محلے وغیرہ میں بھی مسجد قائم کی اور وہاں بھی درس و تدریس کو انجام دیا۔ انہوں نے حضرت عبدالرحمن علیہ الرحمہ کے تعلق سے ایک واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ جس وقت حضرت تعلیمی مشن میں مصروف تھے اور اپنی ذاتی زندگی و معاملات سے بالکل دور تھے۔انکی والدہ نے ایک بار یوں ہی کہ دیا کہ عبدالرحمن اتنا حجرہ کیوں بنواتے ہو، تمہارے حجرے پر کڑکا' بجلی' بھی نہیں گرتی۔ بس کیا تھا لودھی شہید میں واقع انکے حجرے پر بجلی گر گئی اور حجرہ پوری طرح سے زمیں بوش ہوگیالیکن حضرت کو کچھ نہیں ہوا اور وہ حجرے سے مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ اس سے یہ بھی واضح ہے کہ حضرت کی والدہ بھی صوفی صفت خاتون تھیں۔ وفات کے بعد لودھی شہید محلے میں ہی تدفین ہوئی اور آج یہ آستانہ وسیع جگہ پر پھیلا ہواہے۔ عقیدت مندوں کی آمد ہوتی ہے اور یہاں سے آج بھی دین کی تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔
تعلیمی مشن آج بھی آباد ہے
حضرت مولانا عبد الرحمن نے قریب ساڑھے تین سو برس قبل شیرگھاٹی اور مضافات میں جو تعلیمی مشن کو شروع کیا تھا آج وہ بھی قائم اور آباد ہے۔ قاضی محلے میں واقع انکے حجرے میں آج بھی دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ لودھی شہید جس جگہ پر حضرت کا آستانہ واقع ہے وہاں پر ایک بڑا مدرسہ بھی ہے 'مدرسہ رحمانیہ' بھی 1985 سے قائم ہوا۔ آستانے سے متصل ایک عظیم الشان مسجدبھی ہے۔ کل 3ایکڑ 77 ڈسمل کے رقبے پر آستانہ مدرسہ مسجد اور کچھ میدانی علاقہ واقع ہےاور یہ املاک سنی وقف بورڈ پٹنہ سے ملحق ہے۔ گویاکہ جو تعلیمی مشن انہوں نے شروع کیا آج بھی وہ جاری ساری ہے۔ حضرت کے نام سے یہاں ایک مولانا عبد الرحمن تعلیمی مشن تنظیم ہے جسکے تحت غریب یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم وتربیت کا نظم ہے۔
طلبہ کی ہوتی ہے حاضری
حضرت کا آستانہ مولانا درگاہ سے معروف ہے۔ یہاں آستانے پر ویسے تو سبھی طبقے کے عقیدت مندوں کی آمد ہوتی ہے لیکن ان میں طالب علموں کی بڑی عقیدت ہے۔ ایسی عقیدت ہے کہ یہاں طلباء روحانی فیضان کے لیے پہنچتے ہیں اور وہ یہاں کر آکر حاضری دیتے ہیں تو تعلیم میں اگر انکے کوئی روکاوٹ ہے تو وہ دور ہوتی ہے اور اس وجہ سے جمعرات اور جمعہ کو طلباء مختلف علاقوں سے یہاں پہنچتے ہیں۔