مرادآباد: اتر پردیش کے مرادآباد میں ان دنوں پودے کے ذریعہ قدترتی سندور بنانے کا کام زور شور سے جاری ہے۔ اس پودے کی مدد سے سندور بنانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اس پودے کا پھل توڑ کر جب کھولا جاتا ہے تو اندر سے بیج نکل آتے ہیں جنہیں رگڑنے پر ان کا رنگ سندور جیسا ہی ہوتا ہے۔ جس کو سندور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر دیپک مہندی رتّا جو کہ جوبلینٹ ایگریکلچر رورل ڈیولپمنٹ سوسائٹی کے صدر ہیں۔ یہ سوسائٹی مرادآباد کے پاکبڑا علاقے کے منوہر پور میں موجود ہیں۔ یہ سوسائٹی زراعت کے مختلف شعبوں میں تحقیقی کام کرتی ہے اور حکومت ہند اور حکومت اترپردیش کی کئی اسکیموں کے تحت اس ادارے میں کسانوں اور طلباء کو زراعت کے مختلف شعبوں میں تربیت بھی دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر مہندی رتا نے اپنے ادارے میں ایک پودا کاشت کیا ہے جس سے قدرتی طور پر سندور تیار کیا جا رہا ہے۔ اس پودے کو لگانے کے بعد یہ 3 سال میں پھل دینا شروع کر دیتا ہے اور اس سے قدرتی سندور حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہولی کے موقع پر اس پودے سے مکمل طور پر گلال بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ ہولی کے موقع پر اس گلال کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ جلد کے لیے پوری طرح سے محفوظ ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس ٹیکنالوجی سے کاشت کاری کرکے کسان بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ کسانوں کو سندور کاشت کرنے کی ترغیب اس ادارے سے دی جا رہی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف مذہبی مقامات پر اس کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سندور کی مانگ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر عرب ممالک میں رہنے والی ہندوستانی نژاد خواتین میں بھی بڑھ رہی ہے۔ عرب ممالک میں اس قدرتی سندور کی کافی مانگ ہے وہاں رہنے والے ہندوستانی نژاد کے لوگ اس صندور کو پسند کر رہے ہیں اور وہاں سے وقتا فوقتا اس کی مانگ ہوتی رہتی ہے اور اس سندور کو ایک بڑی تعداد میں عرب ممالک کو بھیجا جا رہا ہے اور یہ وہاں کی خواتین کی پہلی پسند بنتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر مہندی رتا سندور کی کاشت کرکے اچھا منافع کما رہے ہیں اور کسانوں کو اس کی کاشت کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔ڈاکٹر مہندی رتہ کا کہنا ہے کہ یہ سندور مکمل طور پر قدرتی ہے۔ اس کو لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ بازار میں فروخت ہونے والا سندور عموماً خواتین کی جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ خواتین اسے لپ اسٹک کے طور پر بھی استعمال کرتی ہیں۔ یعنی وہ اسے اپنے ہونٹوں پر لگاتی ہے۔
ڈاکٹر مہندی رتا کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ عام لوگوں میں اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور مارکیٹ میں اس کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف ملک میں بلکہ سعودی عرب میں ہندوستانی نژاد خواتین بھی اسے خرید رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی سعودی سے ان کے جاننے والے یہاں آتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ قدرتی سندور ضرور سعودی عرب لے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مرادآباد میں پودے کی مدد سے سندور قدرتی طور پر تیار کیا جا رہا ہے
انہوں نے مزید بتایا کہ قدرتی مصنوعات کی طرف لوگوں کا جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق آنے والے وقت میں قدرتی سندور کی مانگ میں اور اضافہ ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ بڑی تعداد میں لوگ اسے ایودھیا لے گئے ہیں اور آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش سمیت یوپی کے کئی اضلاع میں بھی خرید رہے ہیں اور سندور کے پودوں کی مانگ بھی آرہی ہے۔