گیا: مرزا غالب کالج گورننگ باڈی کے سابق نائب صدر اور سابق سکریٹری شاہ زمان انور نے کہا کہ اس سے قبل کی بحالی میں کالج کے جی بی نے یہ فیصلہ کیا کہ انہی کو بحال کیا جائے گا جو کالج میں ایڈہاک پر برسوں سے کام کر رہے ہیں. لہذا انہی کو بحال بھی کیا گیا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ کالج کے ایڈہاک پر کام کرنے والے ملازمین کو نظر انداز کیا گیا۔
ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی اور بحالی رشتہ داروں کے ساتھ خاص مفادی مقصد کے ساتھ باره لوگوں کو بحال کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ غالب کالج میں بحالی اور دیگر معاملوں کو لیکر شہر کے عام وخاص کی میٹنگ ہوئی اور اس میں فیصلہ ہوا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ لیکن کمیٹی میں وہی فرد ہوگا، جو حلف نامہ دے گا کہ وہ صرف کالج کی ترقی فلاح اور اس کے اقلیتی کردار کو بچانے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے بغیر کسی ذاتی مفاد جیسے نا تو وہ کالج میں اپنے رشتے داروں کو بحال کرائے گا۔نہ ہی وہ کسی لالچ کے تحت فائدہ اٹھائے گا، جو بغیر مفاد کے شامل ہوں گے۔ حلف نامہ دیں گے۔ اسے منظر عام پر بھی پیش کیا جائے گا۔ وہی کمیٹی میں شامل ہوگا اور سڑک سے لیکر عدالت تک مرزا غالب کالج کو بچانے کی لڑائی لڑی جائے گی۔ اس میں پہلی مانگ یہی ہوگی کہ فزیکل پہچان کونسلروں کی کرائی جائے۔
اس حوالے سے مرزا غالب کالج میں پروفیسر انچارج کے دفتر پہنچ کر نامہ نگار نے شہر کے چند لوگوں کے ذریعہ اٹھائے گئے سوال اور الزامات کے تعلق سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔
وہاں موجود جی پی کے عہدے داران بالخصوص سکریٹری شبیع عارفین شمسی، نائب صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن خان اور پروفیسر انچارج علی حسین، صدر جی بی عزیز منیری نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ چند لوگوں نے میٹنگ کی تھی جن کا مقصد کالج میں اپنے رشتہ داروں کو بحال کرانا تھا لیکن وہ انٹرویو میں اہل نہیں پائے گئے۔ ان کا انتخاب نہیں ہوا۔ وہی بے بنیاد باتوں اور افواہ پھیلا رہے ہیں اور الزام تراشی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:گیا: مرزاغالب کالج کی گورننگ باڈی میں تبدیلی اور عہدوں کی تقسیم
ان کے کیا الزامات ہیں۔ ہم زیادہ کچھ بات بھی نہیں سکتے کیونکہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ہے۔ میڈیا کو کوئی بیان فی الحال نہیں دیا جائے گا۔ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو پوری گورننگ باڈی پریس کانفرنس کرے گی۔ موجود سبھی اراکین نے باضابط کیمرے پر بیان یا تحریری طور پر بیان دینے سے منع کردیا۔