ETV Bharat / state

ضمنی انتخاب کے اعلان سے پہلے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ - By Election In Gaya

گیا میں واقع دو اسمبلی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ حالانکہ ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم انتخاب کو لے کر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ این ڈی اے اور انڈیا اتحاد دونوں کے کئی رہنماؤں کی جانب سے امیدواری کی دعویداری کی جارہی ہے۔ مسلم رہنما بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں۔

ضمنی انتخاب کے اعلان سے پہلے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ
ضمنی انتخاب کے اعلان سے پہلے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ (etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 26, 2024, 12:30 PM IST

گیا: ریاست بہار کے گیا ضلع کے بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب ہونے کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ لیکن امیدوار پہلے سے ہی اپنی اپنی پارٹیوں کے دفتر کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہ حلقہ ایم ایل اے ڈاکٹر سریندر پرساد یادو کے جہان آباد سے رکن پارلیمان منتخب ہونے کے بعد خالی ہوا ہے۔ انتخاب ہونے میں کچھ وقت ضرور ہے لیکن این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے ممکنہ امیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

آر جے ڈی سے جہاں موجودہ رکن پارلیمان سریندر پر ساد یادو کے بیٹا وشو ناتھ یادو کا نام سر فہرست ہے۔ کیونکہ انکے والد یہاں سے گزشتہ قریب 35 برسوں سے مسلسل رکن اسمبلی رہے ہیں اور 2020 کے بھی اسمبلی انتخابات میں اُنہوں نے جیت درج کی تھی۔ ڈاکٹر سریندر پرساد یادو تو رکن پارلیمان بن گئے ہیں۔ تاہم اب وہ اپنے بڑے بیٹا وشو ناتھ یادو کو اسمبلی تک پہنچانے میں لگے ہیں اور ٹکٹ کے لیے وہ کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ یہاں سے آر جے ڈی کے کئی اور رہنماء ہیں جو ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور وہ پٹنہ میں ہی مسلسل ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان آر جے ڈی میں ایک آواز مسلم رہنماء کو ٹکٹ دینے کی اٹھنے لگی ہے۔

مسلم رہنماؤں اور انکے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے یہاں آر جے ڈی کے امیدوار کو ووٹ دیتے آرہے ہیں تاکہ این ڈی اے اتحاد کا امیدوار نہیں جیتے۔ یہاں تک کہ گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات کے دوران این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو اور ہم پارٹی کے مسلم امیدواروں کو مسلم ووٹروں کا ووٹ آر جے ڈی کے بنسبت کم پڑا۔ لیکن اس بار اگر مسلم رہنماء کو امیدوار نہیں بنایا گیا تو مسلم ووٹر این ڈی اے کے ساتھ کھڑے ہونگے، یہاں سے آر جے ڈی کے سابق ضلع صدر محمد یاسر ، موجودہ صدر محمد نظام سمیت کئی اور رہنماء اُمید واری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہاں مسلم ووٹروں کی بھی یہی مانگ ہے۔

کانگریس کے سینیئر رہنما محمد موسی نے کہا کہ چونکہ اب مضبوط اتحاد بہار میں ہے اور پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں نے انڈیا اتحاد کے حق میں جم کر ووٹ کیا، بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے، یہاں جیت ہار کا فیصلہ مسلمانوں کے ووٹ سے ہوتا ہے۔ جے ڈی یو نے کئی بار مسلم رہنماء کو امیدوار بنایا لیکن آر جے ڈی نے ایک بار بھی ایسا نہیں کیا، انڈیا اتحاد اور آر جے ڈی کی طرف سے مسلم ووٹروں میں 2025 کے اسمبلی انتخابات میں اچھے پیغام اور تاثرات دینے ہیں تو یہاں ضمنی انتخاب میں مسلم رہنماء کو ٹکٹ دی جائے۔ کیونکہ ایک بات مسلمانوں کے درمیان گشت کرنے لگی ہے کہ آر جے ڈی سے سریندر پرساد یادو کو اسلیے ووٹ دیا جاتا تھا کہ ریاست میں سیکولر نظریہ کی حکومت بنے، ابھی اس ضمنی انتخاب سے حکومت بننے یا گرنے والی نہیں ہے۔

اس صورت میں آر جے ڈی کومسلمانوں کے درمیان اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے ٹکٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے والد کو 35 برسوں تک ووٹ دیا گیا اور اب ان کے بیٹے کو آر جے ڈی مسلط کر ووٹ مسلمانوں کا حاصل کرنا چاہتی ہےلیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا نظریہ کسی دوسری پارٹی کے لئے بدل سکتا ہے

جے ڈی یو کی فہرست میں بھی مسلم امیدوار

بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں جے ڈی یو کی طرف سے مسلم امیدواروں کے ناموں پر بھی چرچا ہے۔ ہم پارٹی کے رہنما اسد پرویز عرف کمانڈر کہتے ہیں کہ جے ڈی یو اپنی اتحادی پارٹی سے بھی مشورہ کیا ہے۔پارٹی کی سطح پر کچھ مسلم رہنماؤں کے ناموں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیاہے۔ وہیں مانا جارہا ہے کہ اگر بیلا گنج اسمبلی حلقہ جے ڈی یو مسلم کے کھاتے میں دینے کو راضی ہوتی ہے، تو یہاں سے کئی مسلم امیدوار ہیں جن کے ناموں پر چرچا ہوسکتی ہے ۔یہ سبھی اپنے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک بڑا نام شارم علی کا بھی ہے، شارم علی کے والد مرحوم پروفیسر شوکت علی کا وزیر اعلی نتیش کمار کے ساتھ تعلقات سمتا پارٹی کے دور سے تھا، شارم علی نے اپنی سیاست جے ڈی یو سے ہی شروع کی تھی۔

تاہم جیتن رام مانجھی کے وزیر اعلیٰ سے ہٹنے پر وہ 2015 میں جے ڈی یو سے مستفی ہو گئے تھے۔ شارم علی نے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے میں شامل ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کی ٹکٹ پر آر جے ڈی کے امیدوار ڈاکٹر سریندر پرساد یادو کے خلاف انتخاب بھی لڑ چکے ہیں ۔ شا رم علی کو 42000 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے، محض 12 ہزار ووٹوں سے انکی شکست ہوئی تھی۔ شا رم علی یہاں سے دو بار الیکشن لڑ چکے ہیں، 2020 کے اسمبلی انتخاب میں وہ چندر شیکھر آزاد کی پارٹی سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ایک بار پھر جے ڈی یو میں شامل ہوکر وہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ان کے علاوہ اقبال حسین، محمد امجد، جے ڈی یو کے سابق ضلع صدر ایڈوکیٹ شوکت علی خان ، صبیح الباقی عرف پرنس سمیت کئی اور رہنماء ہیں جو امیدوار کے طور ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ روز ہی صبیح الباقی کی جے ڈی یو کے ریاستی صدر امیش کشواہا سے ملاقات نے بیلا گنج حلقہ میں سیاسی ہلچل مچادی ہے۔ وہ بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں یہ بھی چرچا ہئے کہ اگر مسلم رہنماؤں کو یہاں سے جے ڈی یو امیدوار نہیں بناتی ہے تو یہاں سے سابق ایم ایل سی منور ما دیوی یا انکے بیٹا راکی یادو ہو سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ کئی اور رہنماء ہیں۔

دلچسپ ہوگا مقابلہ

بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب دلچسپ ہوگا۔ یہاں کے مسلم ووٹر اس بار آر جے ڈی سے بھی کھل کر اپنی قیادت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مقامی باشندہ محمد صلاح الدین اور محمد جہانگیر، طارق انور نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں تین لاکھ سے زائد ووٹرہیں ان میں قریب 65 ہزار مسلم ووٹر ہیں جبکہ 55 ہزار کے قریب یادو برادری کے ووٹر ہیں۔

ایس سی ایس ٹی ووٹروں کی تعداد بھی اسی تعداد کے قریب ہے، بقیہ ووٹروں میں سبھی ذات کے ووٹر ہیں۔ مسلم اور یادو برادری کا ووٹ ہی یہاں جیت ہار طے کر دیتا ہے۔ اگر آر جے ڈی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے اور ایمانداری کے ساتھ یادو برادری کا ووٹ مسلم امیدوار کے حق میں منتقل ہوتا ہے تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جیت ہوجائے گی۔ لیکن ان سب سے پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آر جے ڈی بھی مسلم امیدوار کو اس بار موقع دے۔

یہ بھی پڑھیں: نتیش کمار ہفتہ کو تیتر ریزر وائر کا افتتاح کریں گے

محمد عمیر کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو مسلمانوں کی بڑی تعداد جے ڈی یو کی طرف منتقل ہوگی حالانکہ پہلے بھی جے ڈی یو پر مسلمانوں نے اعتماد کیا تھا اور یہاں سے جے ڈی یو کے امیدوار محمد امجد نے انتہائی کم ووٹوں سے شکست کھائی تھی۔ اگر مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ جے ڈی یو کے حق میں بھی کر دیا تو جے ڈی یو کی بھی جیت یقینی ہو سکتی ہے لیکن یہ ساری چیزیں تبھی واضح ہونگی جب ضمنی انتخاب کا اعلان ہوگا۔

گیا: ریاست بہار کے گیا ضلع کے بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب ہونے کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ لیکن امیدوار پہلے سے ہی اپنی اپنی پارٹیوں کے دفتر کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہ حلقہ ایم ایل اے ڈاکٹر سریندر پرساد یادو کے جہان آباد سے رکن پارلیمان منتخب ہونے کے بعد خالی ہوا ہے۔ انتخاب ہونے میں کچھ وقت ضرور ہے لیکن این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے ممکنہ امیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

آر جے ڈی سے جہاں موجودہ رکن پارلیمان سریندر پر ساد یادو کے بیٹا وشو ناتھ یادو کا نام سر فہرست ہے۔ کیونکہ انکے والد یہاں سے گزشتہ قریب 35 برسوں سے مسلسل رکن اسمبلی رہے ہیں اور 2020 کے بھی اسمبلی انتخابات میں اُنہوں نے جیت درج کی تھی۔ ڈاکٹر سریندر پرساد یادو تو رکن پارلیمان بن گئے ہیں۔ تاہم اب وہ اپنے بڑے بیٹا وشو ناتھ یادو کو اسمبلی تک پہنچانے میں لگے ہیں اور ٹکٹ کے لیے وہ کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ یہاں سے آر جے ڈی کے کئی اور رہنماء ہیں جو ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور وہ پٹنہ میں ہی مسلسل ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان آر جے ڈی میں ایک آواز مسلم رہنماء کو ٹکٹ دینے کی اٹھنے لگی ہے۔

مسلم رہنماؤں اور انکے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے یہاں آر جے ڈی کے امیدوار کو ووٹ دیتے آرہے ہیں تاکہ این ڈی اے اتحاد کا امیدوار نہیں جیتے۔ یہاں تک کہ گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات کے دوران این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو اور ہم پارٹی کے مسلم امیدواروں کو مسلم ووٹروں کا ووٹ آر جے ڈی کے بنسبت کم پڑا۔ لیکن اس بار اگر مسلم رہنماء کو امیدوار نہیں بنایا گیا تو مسلم ووٹر این ڈی اے کے ساتھ کھڑے ہونگے، یہاں سے آر جے ڈی کے سابق ضلع صدر محمد یاسر ، موجودہ صدر محمد نظام سمیت کئی اور رہنماء اُمید واری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہاں مسلم ووٹروں کی بھی یہی مانگ ہے۔

کانگریس کے سینیئر رہنما محمد موسی نے کہا کہ چونکہ اب مضبوط اتحاد بہار میں ہے اور پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں نے انڈیا اتحاد کے حق میں جم کر ووٹ کیا، بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے، یہاں جیت ہار کا فیصلہ مسلمانوں کے ووٹ سے ہوتا ہے۔ جے ڈی یو نے کئی بار مسلم رہنماء کو امیدوار بنایا لیکن آر جے ڈی نے ایک بار بھی ایسا نہیں کیا، انڈیا اتحاد اور آر جے ڈی کی طرف سے مسلم ووٹروں میں 2025 کے اسمبلی انتخابات میں اچھے پیغام اور تاثرات دینے ہیں تو یہاں ضمنی انتخاب میں مسلم رہنماء کو ٹکٹ دی جائے۔ کیونکہ ایک بات مسلمانوں کے درمیان گشت کرنے لگی ہے کہ آر جے ڈی سے سریندر پرساد یادو کو اسلیے ووٹ دیا جاتا تھا کہ ریاست میں سیکولر نظریہ کی حکومت بنے، ابھی اس ضمنی انتخاب سے حکومت بننے یا گرنے والی نہیں ہے۔

اس صورت میں آر جے ڈی کومسلمانوں کے درمیان اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے ٹکٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے والد کو 35 برسوں تک ووٹ دیا گیا اور اب ان کے بیٹے کو آر جے ڈی مسلط کر ووٹ مسلمانوں کا حاصل کرنا چاہتی ہےلیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا نظریہ کسی دوسری پارٹی کے لئے بدل سکتا ہے

جے ڈی یو کی فہرست میں بھی مسلم امیدوار

بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں جے ڈی یو کی طرف سے مسلم امیدواروں کے ناموں پر بھی چرچا ہے۔ ہم پارٹی کے رہنما اسد پرویز عرف کمانڈر کہتے ہیں کہ جے ڈی یو اپنی اتحادی پارٹی سے بھی مشورہ کیا ہے۔پارٹی کی سطح پر کچھ مسلم رہنماؤں کے ناموں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیاہے۔ وہیں مانا جارہا ہے کہ اگر بیلا گنج اسمبلی حلقہ جے ڈی یو مسلم کے کھاتے میں دینے کو راضی ہوتی ہے، تو یہاں سے کئی مسلم امیدوار ہیں جن کے ناموں پر چرچا ہوسکتی ہے ۔یہ سبھی اپنے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک بڑا نام شارم علی کا بھی ہے، شارم علی کے والد مرحوم پروفیسر شوکت علی کا وزیر اعلی نتیش کمار کے ساتھ تعلقات سمتا پارٹی کے دور سے تھا، شارم علی نے اپنی سیاست جے ڈی یو سے ہی شروع کی تھی۔

تاہم جیتن رام مانجھی کے وزیر اعلیٰ سے ہٹنے پر وہ 2015 میں جے ڈی یو سے مستفی ہو گئے تھے۔ شارم علی نے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے میں شامل ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کی ٹکٹ پر آر جے ڈی کے امیدوار ڈاکٹر سریندر پرساد یادو کے خلاف انتخاب بھی لڑ چکے ہیں ۔ شا رم علی کو 42000 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے، محض 12 ہزار ووٹوں سے انکی شکست ہوئی تھی۔ شا رم علی یہاں سے دو بار الیکشن لڑ چکے ہیں، 2020 کے اسمبلی انتخاب میں وہ چندر شیکھر آزاد کی پارٹی سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ایک بار پھر جے ڈی یو میں شامل ہوکر وہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ان کے علاوہ اقبال حسین، محمد امجد، جے ڈی یو کے سابق ضلع صدر ایڈوکیٹ شوکت علی خان ، صبیح الباقی عرف پرنس سمیت کئی اور رہنماء ہیں جو امیدوار کے طور ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ روز ہی صبیح الباقی کی جے ڈی یو کے ریاستی صدر امیش کشواہا سے ملاقات نے بیلا گنج حلقہ میں سیاسی ہلچل مچادی ہے۔ وہ بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں یہ بھی چرچا ہئے کہ اگر مسلم رہنماؤں کو یہاں سے جے ڈی یو امیدوار نہیں بناتی ہے تو یہاں سے سابق ایم ایل سی منور ما دیوی یا انکے بیٹا راکی یادو ہو سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ کئی اور رہنماء ہیں۔

دلچسپ ہوگا مقابلہ

بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب دلچسپ ہوگا۔ یہاں کے مسلم ووٹر اس بار آر جے ڈی سے بھی کھل کر اپنی قیادت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مقامی باشندہ محمد صلاح الدین اور محمد جہانگیر، طارق انور نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں تین لاکھ سے زائد ووٹرہیں ان میں قریب 65 ہزار مسلم ووٹر ہیں جبکہ 55 ہزار کے قریب یادو برادری کے ووٹر ہیں۔

ایس سی ایس ٹی ووٹروں کی تعداد بھی اسی تعداد کے قریب ہے، بقیہ ووٹروں میں سبھی ذات کے ووٹر ہیں۔ مسلم اور یادو برادری کا ووٹ ہی یہاں جیت ہار طے کر دیتا ہے۔ اگر آر جے ڈی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے اور ایمانداری کے ساتھ یادو برادری کا ووٹ مسلم امیدوار کے حق میں منتقل ہوتا ہے تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جیت ہوجائے گی۔ لیکن ان سب سے پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آر جے ڈی بھی مسلم امیدوار کو اس بار موقع دے۔

یہ بھی پڑھیں: نتیش کمار ہفتہ کو تیتر ریزر وائر کا افتتاح کریں گے

محمد عمیر کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو مسلمانوں کی بڑی تعداد جے ڈی یو کی طرف منتقل ہوگی حالانکہ پہلے بھی جے ڈی یو پر مسلمانوں نے اعتماد کیا تھا اور یہاں سے جے ڈی یو کے امیدوار محمد امجد نے انتہائی کم ووٹوں سے شکست کھائی تھی۔ اگر مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ جے ڈی یو کے حق میں بھی کر دیا تو جے ڈی یو کی بھی جیت یقینی ہو سکتی ہے لیکن یہ ساری چیزیں تبھی واضح ہونگی جب ضمنی انتخاب کا اعلان ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.