کلکتہ: کلکتہ ہائی کورٹ نے شیر کا نام اکبر اور شیرنی کا نام سیتا کے تنازع سے بچنے کے لیے مغربی بنگال چڑیا گھر اتھارٹی کو شیروں کے نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جسٹس سوگتا بھٹاچاریہ نے زبانی طور پر ریاست سے جمعرات کو دونوں جانوروں کے نام تبدیل کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے مدعی کو اس کیس کو مفاد عامہ کے مقدمے کے طور پر دائر کرنے کا بھی حکم دیا۔ جمعرات کو کیس میں مزید کوئی حکم نہیں دیا گیا۔
13 فروری کو اکبر نامی شیر اور سیتا نامی شیرنی کو تریپورہ کے وشال گڑھ کے سپاہیجالا زولوجیکل پارک سے جلپائی گوڑی کے سفاری پارک میں لایا گیا ہے۔ وہاں انہیں ایک ہی مقام پر رکھا جاتا ہے۔ وشو ہندو پریشد نے اس نام کے شیر جوڑے کو ایک احاطے میں رکھنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالت میں عرضی دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مبینہ طور پر اس نام کے شیر اور شیرنی کو ایک احاطے میں رکھ کر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔
جمعرات کو کلکتہ ہائی کورٹ کی جلپائی گوڑی سرکٹ بنچ میں اس کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس بھٹاچاریہ نے کہا کہ یہ نام کس نے رکھا؟ اتنا تنازعہ کون کھڑا کر رہا ہے؟ کیا کسی جانور کا نام دیوتا، افسانوی ہیرو، آزادی پسند یا نوبل انعام یافتہ کے نام پر رکھا جا سکتا ہے؟ اکبر اور سیتا کے نام پر رکھے گئے شیروں اور شیرنی کے ناموں نے ہی تنازعہ کو ہوا دی ہے۔ اس تنازعہ سے بچا جا سکتا تھا۔ صرف سیتا ہی نہیں اکبر کا بھی نام نہیں لینا چاہیے۔ وہ مغلیہ سلطنت کے عظیم شہنشاہ تھے۔ وہ بہت باصلاحیت اور سیکولر تھے۔ ریاست کو ایسے ناموں کی مخالفت کرنی چاہیے ۔‘‘
اس تناظر میں جج نے علی پور چڑیا گھر کی مثال دی۔ انہوں نے کہاکہ ’’کتنے مشترکہ نام ہیں جن پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ علی پور کے چڑیا گھر میں شیرنی کے نام پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔سماعت میں ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ تریپورہ میں شیر اور شیرنی کا نام رکھا گیا تھا۔ ریاست نام کی تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔ (یواین آئی)
یہ بھی پڑھیں: 'اکبر' اور 'سیتا' ایک ساتھ، وی ایچ پی نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا