نئی دہلی:آل انڈیا شیعہ کونسل، القدس کمیٹی، اہلبیت کونسل انڈیا کے اشتراک سے ایوان غالب کے اڈیٹوریم میں عالمی یوم القدس کانفرنس کا انعقاد شیعہ جامع مسجد کے امام مولانا سید محسن علی تقوی کی صدارت میں کیا گیا جس میں قبلہ اول مسجد الاقصی کی بازیابی اور صیہونی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ اس دوران فلسطینی عوام کے ساتھ ہو رہے ظلم و زیادتی پر بھی بات کی گئی۔
فلک شگاف نعروں سے اس کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں امریکہ اور اسرائیل مردہ باد، اور فلسطین زندہ باد کی آوازیں بلند کی گئی۔ اس موقع پر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اسرائیل کی فلسطین پر جاریت تو مسلسل جاری ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ظلم کی ٹہنی صدا پھلتی نہیں، ناو کاغذ کی صدا چلتی نہیں، ناکامی ان کا مقدر ہے اس لیے ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ آئندہ برس ہم یوم القدس کے موقع پر آزاد فلسطین کا جشن منائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج اسرائیل کے اندر وہ ہو رہا ہے جو دیگر ممالک میں دیکھنے کو ملتا تھا آج اسرائیلی عوام خود اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر اتری ہوئی ہے اور فلسطین کی حمایت میں لوگ اپنی آواز بلند کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپ کے ممالک میں بھی فلسطین کی حمایت میں فضا قائم ہو رہی ہے۔
سردار دیا سنگھ نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ سے جو ظلم فلسطینی عوام پر کیا جا رہا ہے وہ ظلم کی انتہا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے بھارت سرکار کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کی اس جنگ میں مداخلت کرکے جنگ بندی کی لیے اقدام کرے باقی سکھ سماج فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
سوامی سرنگ بابا نے کہا کہ جنگ تو اسی دن شروع ہوئی تھی اور اسی دن ختم بھی ہو گئی جس دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا اسرائیل فلسطینی عوام پر انٹرنیشنل کرائم کر رہا ہے تاہم ہم شانتی پسند لوگ ہیں ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
حکومت ایران کے بھارت میں سفیر ایرج الہی نے کہا کہ ہم گزشتہ 40 برسوں سے امام خمینی کے حکم پر رمضان کے آخری جمعہ میں یوم القدس مناتے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عالم اسلام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران اسرائیلی جارحیت کے سبب ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔