الور۔ آج کے جدید دور میں آگ پر قابو پانے کے لیے راجستھان کے ہر میونسپل باڈی اور میونسپل کارپوریشن میں ایک سے زیادہ فائر انجن تیار کھڑے ہیں۔ اگر ہم ان کے کاموں کو دیکھیں تو وہ فوج کے ٹینکوں سے کم نہیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ٹینک صرف دشمنوں پر آگ کی بارش کرتا ہے اور یہ فائر انجن آگ پر قابو پا کر آگ لگنے کے واقعات میں کئی جانیں بچاتے ہیں۔ آج ہم آپ کو ایک ایسے فائر انجن کی کہانی سنانے جارہے ہیں، جو عمر اور حالت کی وجہ سے بوڑھا ہے، لیکن جوانی میں اس فائر انجن کی دلکشی ایسی رہی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی الور فائر کے ملازمین کو محکمہ اور عوام اس کو نہیں بھول سکتے۔
الور فائر ڈپارٹمنٹ کے اے ایف او جگدیپ تاشک نے کہا کہ ایک غیر ملکی کمپنی کا یہ فائر انجن آج بھی الور میونسپل کارپوریشن میں فخر سے کھڑا ہے۔ اس کی حالت قابل رحم ضرور ہے لیکن اس کی تعیناتی کے بعد سے 1952 ماڈل کے اس فائر انجن نے 3000 سے زائد آگ حادثات پر قابو پا کر بہت سے لوگوں کی جانوں اور املاک کو بچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2010 میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی یہ پرانا فائر انجن الور میونسپل کارپوریشن میں کھڑا ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ساتھ کام کیا آج بھی اس فائر گاڑی سے گہری یادیں اور جذبات وابستہ ہیں۔
لوگ اسے 52 ماڈل کے نام سے جانتے ہیں: جگدیپ تکشک نے بتایا کہ آج بھی الور میونسپل کارپوریشن کے ریٹائرڈ افسران اس فائر انجن کو 52 ماڈل کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ فائر ٹرک جرمنی کی شیورلیٹ کمپنی کا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جس نے بھی اس ٹرک پر کام کیا اس نے اسے ہمیشہ اپنی یادوں میں محفوظ رکھا۔ فائر ڈپارٹمنٹ سے موصولہ اطلاع کے مطابق اس 52 ماڈل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جس کمپنی نے اسے بنایا ہے وہ آج الور کی میونسپل کارپوریشن کونسل سے بھی اس کی مانگ کر رہی ہے۔ کمپنی نے اس ماڈل کے لیے کئی بار بائی آفرز دی ہیں لیکن اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے کمپنی کے آرڈرز کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔
مزید پڑھیں:Delhi Fire دہلی کی سب سے بڑی الیکٹرانک مارکیٹ بھاگیرتھ پیلس میں آتشزدگی
اسی لیے مینوفیکچرنگ کمپنی پوچھ رہی ہے؟ : یہ 1952 ماڈل ٹرک شیورلیٹ کمپنی کے پاس اب دستیاب نہیں ہے۔ یہ جرمن کمپنی 1952 کے ٹرک کو قدیم گاڑی کے طور پر اپنے ڈسپلے میں رکھنا چاہتی ہے اور اسے ایک قدیم چیز کے طور پر سجانا چاہتی ہے۔ فائر ڈپارٹمنٹ سے موصولہ اطلاع کے مطابق یہ ٹرک 1952 سے 2010 تک الور میں مسلسل خدمات انجام دے چکا ہے۔