حیدرآباد: بھارتی ٹیم کے وکٹ کیپر بلے باز رشبھ پنت کار حادثے کے بعد تاحال صحت یاب نہیں ہو سکے۔ وہ آئی پی ایل 2024 میں واپسی کے لیے بھی سخت محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسٹار اسپورٹس کی سیریز 'بیلیو: ٹو ڈیتھ اینڈ بیک' میں حادثے کے متعلق بہت سی باتوں کا انکشاف کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے ڈریسنگ روم کے ماحول کا بھی ذکر کیا۔۔
13 ماہ قبل پیش آنے والے خوفناک سڑک حادثے کا ذکر کرتے ہوئے رشبھ نے کہا کہ انہیں ڈر تھا کہ ان کا دایاں پیر کاٹ دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے وقت درد ناقابل برداشت تھا کیونکہ اس وقت میرا گھٹنا 180 ڈگری گھوم گیا تھا۔ میرے ساتھ کوئی تھا جس نے میرے پیر کو واپس صحیح مقام پر لانے میں میری مدد کی، اس وقت میرے گھٹنے سے ایک زوردار آواز بھی آئی۔
حادثے کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے رشبھ پنت نے کہا کہ میں اپنی ایس یو وی کار میں گھر کے لیے نکلا تھا۔ حادثے کے بعد گاڑی میں آگ لگنے سے پہلے دو افراد رجت کمار اور نشو کمار مجھے ایس یو وی سے باہر نکالنے میں کامیاب رہے۔ حادثے کے وقت میں زخموں سے واقف تھا، لیکن میں خوش قسمت تھا کیونکہ یہ زخم اور بھی سنگین ہو سکتے تھے۔پنت نے مزید کہا کہ کوئی ایسی طاقت تھی جس نے مجھے بچایا ہے اور ہر کسی کو دوسری بار زندگی نہیں ملتی۔
رشبھ پنت کا ابتدائی علاج دہرادون کے ایک اسپتال میں ہوا لیکن بعد میں اسے ممبئی لے جایا گیا جہاں وہ بی سی سی آئی کے ذریعہ لائے گئے ایک ماہر ڈاکٹر کی دیکھ بھال میں تھے۔ اپنے دائیں گھٹنے کی سرجری سے صحتیاب ہونے کے بعد پنت نے بنگلورو میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی جوائن کی۔
پنت نے کہا کہ یہ وقت کافی زیادہ مایوس کن تھا کیونکہ میں دنیا سے کٹ کر صحت یابی پر توجہ مرکوز کر رہا تھا اور جب چوٹ بہت سنگین ہوتی ہے تو پھر صحت یابی کے لیے آپ کو ہر روز ایک ہی کام کرنا پڑتا ہے جو کی کافی زیادہ بورنگ اور پریشان کن ہوتا ہے لیکن آپ کو اسے کرنا پڑتا ہے۔
پنت نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ مجھے صحت یاب ہونے میں کتنا وقت لگے گا، تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس میں 16 سے 18 مہینے لگیں گے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ آپ مجھے جو بھی ٹائم لائن دیں گے، میں اس سے چھ ماہ کم کر دوں گا۔
واضح رہے کہ رشبھ پنت دسمبر 2022 میں گھر واپس آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ رشبھ اپنی ماں کو سرپرائز دینے خود ڈرائیو کرکے گھر جا رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں خود گاڑی چلا رہا تھا اس لیے میں خود اس کا ذمہ دار ہوں۔