ETV Bharat / opinion

امریکہ نیلسن منڈیلا کو 2008 تک دہشت گرد مانتا تھا، آخر کیوں؟ - Nelson Mandela in US terrorist List - NELSON MANDELA IN US TERRORIST LIST

2013 میں دنیا کو الوداع کہنے والی عالمی شہرت یافتہ شخصیت نیلسن منڈیلا کو امریکی حکومت 2008 تک دہشت گرد مانتی رہی۔ امریکہ کی دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں ان کا نام عوامی زندگی سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی موجود رہا۔ آخر کیوں؟ منڈیلا کی زندگی کے اس دلچسپ پہلو پر صحافی امام الدین علیگ کی ایک خاص رپورٹ۔

Nelson Mandela
Nelson Mandela (File Photo)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 2, 2024, 2:37 PM IST

جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر، دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد، امن اور آزادی کی علامت کے طور پر مشہور نیلسن منڈیلا کا انتقال پانچ دسمبر 2013 میں ہوا۔ ان کے انتقال پر دنیا بھر کے قائدین کی طرح امریکی قائدین نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا اور تعزیتی پیغامات جاری کیے۔ تاہم آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ وہی امریکی لیڈرشپ تھی جو 2013 میں منڈیلا کے انتقال سے محض پانچ سال پہلے تک انہیں دہشت گرد مانتی تھی! جی ہاں، منڈیلا 2008 تک امریکہ کی دہشت گرد واچ لسٹ میں تھے۔

دراصل نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دور میں افریقی نیشنل کانگریس (ANC) اور اس کے مسلح گروپ 'امکھونتو وے سجوے' کے صدر تھے۔ اس دوران انہوں نے 27 سال کا ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ آخر کار 1990 میں ان کی جدوجہد رنگ لائی اور ملک کی سفید فام حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں انہوں نے ایک نیا جنوبی افریقہ تشکیل دیا جس کے وہ پہلے سیاہ فام صدر بنے۔

نسلی امتیاز کے خلاف ان کی جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 2009 میں اقوام متحدہ نے ان کے یوم پیدائش (18 جولائی 1918) کو 'یوم منڈیلا' کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

دنیا بھر میں منڈیلا کی قدر و منزلت، عالمی سطح پر ان کی عزت افزائی اور نسلی امتیاز کے خلاف ان کی بے مثال جدوجہد کے برعکس امریکہ انہیں 2008 تک دہشت گرد مانتا رہا۔

درحقیقت اس کے پیچھے کی جو اصل وجہ کار فرما تھی، وہ امریکی حکومت اور اس کے لیڈران کی سرد جنگ والی ذہنیت تھی۔

دراصل نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کے دوران نیلسن منڈیلا جس افریقی نیشنل کانگریس (ANC) سے وابستہ تھے، اس کے کچھ کارکنوں نے نسلی تشدد اور امتیاز کو ختم کرنے کے لیے تشدد کو ایک ممکنہ ذریعے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

منڈیلا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ گاندھی جی کے عدم تشدد والے نظریے کے قائل تھے۔ افریقی نیشنل کانگریس 1912 میں اپنے قیام کے بعد کئی دہائیوں تک نسل پرستی کے خلاف جد و جہد میں عدم تشدد کے نظریے پر سختی سے کاربند رہی۔ لیکن 1960 میں افریقہ کی سفید فام حکومت کے وحشیانہ تشدد اور سیاہ فام لوگوں کے قتل عام کی وجہ سے اے این سی اپنے عدم تشدد کے طریقہ کار سے ڈگمگا گئی۔ اسی دوران سفید فام حکومت نے اے این سی پر پابندی لگا دی۔

جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں مہاتما گاندھی کا مجسہ
جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں مہاتما گاندھی کا مجسہ (File Photo)

اس واقعے کے بعد منڈیلا افریقن نیشنل کانگریس کی عسکری ونگ 'امکھونتو وے سجوے' کے سربراہ بن گئے۔ 1964 کے دوران اس عسکری تنظیم پر تشدد اور تخریب کاری کے متعدد الزامات عائد کیے گئے۔ بعد ازاں منڈیلا کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں منڈیلا نے ایک انٹرویو میں صفائی دیتے ہوئے کہا تھا ''(سفید فارم حکام کے ساتھ) مسلح جدوجہد کے لیے ہمیں حکومت نے مجبور کیا تھا۔''

یہ بھی پڑھیں: Owaisi On Godse ناتھورام گوڈسے بھارت کا پہلا دہشت گرد: اسدالدین اویسی

اس دور کی سوویت یونین حکومت کے ساتھ سرد جنگ میں الجھی امریکی سرکار ابتدا میں منڈیلا کی غیر مسلح جدوجہد کا معترف تھی۔ لیکن اے این سی پر پابندی لگنے کے بعد امریکی حکومت کو شک ہو چلا کہ تنظیم کو خفیہ مسلح مہم کو جاری رکھنے کے لیے سوویت یونین اور کمیونسٹ طاقتوں کی طرف سے فنڈ اور عسکری ساز و سامان فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ سوویت یونین کا اے این سی میں کتنا عمل دخل تھا۔ لیکن اس شک کی بنا پر امریکہ غلط رخ پر چلا گیا۔

نتیجتاً امریکی حکومت نے منڈیلا کو "سرد جنگ کے غلط رخ پر کھڑے شخص" کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا اور ان کا نام دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں رکھ کر ان پر نظر رکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران منڈیلا جیل میں تھے۔

نیلسن منڈیلا
نیلسن منڈیلا (File Photo)

بالآخر اس جدوجہد نے اپنا اثر دکھایا اور دھیرے دھیرے اے این سی اور منڈیلا کے تعلق سے عالمی رائے عامہ یکسر بدل گئی، نیز جیل سے باہر نکلے منڈیلا کی تشدد کے تعلق سے سوچ بھی بدل چکی تھی۔ اگر نہیں بدلی تو وہ تبھی امریکی حکومت کی پالیسی۔

مزید پڑھیں: بھارت کی ترقی اور معیشت کے متعلق مہاتما گاندھی کے خیالات

اے این سی اور منڈیلا کے تئیں امریکی حکومت کی پرانی سوچ اور پالیسی برقرار رہی۔ 1990 میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اے این سی اور منڈیلا کو امریکہ میں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازات لینی پڑتی تھی۔

بالآخر 2008 میں امریکہ کی سکریٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس نے دہشت گرد لسٹ میں موجود منڈیلا پر عائد ان سفری پابندیوں کو ختم کی وکالت کی۔ نتیجتاً جولائی 2008 میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک بل پر دستخط کر کے اس پابندی کو ختم کیا اور منڈیلا کو دہشت گردوں کی واچ لسٹ سے باہر نکالا، حالانکہ اس وقت تک منڈیلا اپنی عوامی زندگی سے ریٹائر ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مہاتما گاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کی علامت


جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر، دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد، امن اور آزادی کی علامت کے طور پر مشہور نیلسن منڈیلا کا انتقال پانچ دسمبر 2013 میں ہوا۔ ان کے انتقال پر دنیا بھر کے قائدین کی طرح امریکی قائدین نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا اور تعزیتی پیغامات جاری کیے۔ تاہم آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ وہی امریکی لیڈرشپ تھی جو 2013 میں منڈیلا کے انتقال سے محض پانچ سال پہلے تک انہیں دہشت گرد مانتی تھی! جی ہاں، منڈیلا 2008 تک امریکہ کی دہشت گرد واچ لسٹ میں تھے۔

دراصل نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دور میں افریقی نیشنل کانگریس (ANC) اور اس کے مسلح گروپ 'امکھونتو وے سجوے' کے صدر تھے۔ اس دوران انہوں نے 27 سال کا ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ آخر کار 1990 میں ان کی جدوجہد رنگ لائی اور ملک کی سفید فام حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں انہوں نے ایک نیا جنوبی افریقہ تشکیل دیا جس کے وہ پہلے سیاہ فام صدر بنے۔

نسلی امتیاز کے خلاف ان کی جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 2009 میں اقوام متحدہ نے ان کے یوم پیدائش (18 جولائی 1918) کو 'یوم منڈیلا' کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

دنیا بھر میں منڈیلا کی قدر و منزلت، عالمی سطح پر ان کی عزت افزائی اور نسلی امتیاز کے خلاف ان کی بے مثال جدوجہد کے برعکس امریکہ انہیں 2008 تک دہشت گرد مانتا رہا۔

درحقیقت اس کے پیچھے کی جو اصل وجہ کار فرما تھی، وہ امریکی حکومت اور اس کے لیڈران کی سرد جنگ والی ذہنیت تھی۔

دراصل نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کے دوران نیلسن منڈیلا جس افریقی نیشنل کانگریس (ANC) سے وابستہ تھے، اس کے کچھ کارکنوں نے نسلی تشدد اور امتیاز کو ختم کرنے کے لیے تشدد کو ایک ممکنہ ذریعے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

منڈیلا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ گاندھی جی کے عدم تشدد والے نظریے کے قائل تھے۔ افریقی نیشنل کانگریس 1912 میں اپنے قیام کے بعد کئی دہائیوں تک نسل پرستی کے خلاف جد و جہد میں عدم تشدد کے نظریے پر سختی سے کاربند رہی۔ لیکن 1960 میں افریقہ کی سفید فام حکومت کے وحشیانہ تشدد اور سیاہ فام لوگوں کے قتل عام کی وجہ سے اے این سی اپنے عدم تشدد کے طریقہ کار سے ڈگمگا گئی۔ اسی دوران سفید فام حکومت نے اے این سی پر پابندی لگا دی۔

جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں مہاتما گاندھی کا مجسہ
جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں مہاتما گاندھی کا مجسہ (File Photo)

اس واقعے کے بعد منڈیلا افریقن نیشنل کانگریس کی عسکری ونگ 'امکھونتو وے سجوے' کے سربراہ بن گئے۔ 1964 کے دوران اس عسکری تنظیم پر تشدد اور تخریب کاری کے متعدد الزامات عائد کیے گئے۔ بعد ازاں منڈیلا کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں منڈیلا نے ایک انٹرویو میں صفائی دیتے ہوئے کہا تھا ''(سفید فارم حکام کے ساتھ) مسلح جدوجہد کے لیے ہمیں حکومت نے مجبور کیا تھا۔''

یہ بھی پڑھیں: Owaisi On Godse ناتھورام گوڈسے بھارت کا پہلا دہشت گرد: اسدالدین اویسی

اس دور کی سوویت یونین حکومت کے ساتھ سرد جنگ میں الجھی امریکی سرکار ابتدا میں منڈیلا کی غیر مسلح جدوجہد کا معترف تھی۔ لیکن اے این سی پر پابندی لگنے کے بعد امریکی حکومت کو شک ہو چلا کہ تنظیم کو خفیہ مسلح مہم کو جاری رکھنے کے لیے سوویت یونین اور کمیونسٹ طاقتوں کی طرف سے فنڈ اور عسکری ساز و سامان فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ سوویت یونین کا اے این سی میں کتنا عمل دخل تھا۔ لیکن اس شک کی بنا پر امریکہ غلط رخ پر چلا گیا۔

نتیجتاً امریکی حکومت نے منڈیلا کو "سرد جنگ کے غلط رخ پر کھڑے شخص" کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا اور ان کا نام دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں رکھ کر ان پر نظر رکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران منڈیلا جیل میں تھے۔

نیلسن منڈیلا
نیلسن منڈیلا (File Photo)

بالآخر اس جدوجہد نے اپنا اثر دکھایا اور دھیرے دھیرے اے این سی اور منڈیلا کے تعلق سے عالمی رائے عامہ یکسر بدل گئی، نیز جیل سے باہر نکلے منڈیلا کی تشدد کے تعلق سے سوچ بھی بدل چکی تھی۔ اگر نہیں بدلی تو وہ تبھی امریکی حکومت کی پالیسی۔

مزید پڑھیں: بھارت کی ترقی اور معیشت کے متعلق مہاتما گاندھی کے خیالات

اے این سی اور منڈیلا کے تئیں امریکی حکومت کی پرانی سوچ اور پالیسی برقرار رہی۔ 1990 میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اے این سی اور منڈیلا کو امریکہ میں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازات لینی پڑتی تھی۔

بالآخر 2008 میں امریکہ کی سکریٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس نے دہشت گرد لسٹ میں موجود منڈیلا پر عائد ان سفری پابندیوں کو ختم کی وکالت کی۔ نتیجتاً جولائی 2008 میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک بل پر دستخط کر کے اس پابندی کو ختم کیا اور منڈیلا کو دہشت گردوں کی واچ لسٹ سے باہر نکالا، حالانکہ اس وقت تک منڈیلا اپنی عوامی زندگی سے ریٹائر ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مہاتما گاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کی علامت


ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.