ETV Bharat / opinion

پاکستان عام انتخابات 2024: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، جمہوریت یا آمریت - پاکستان عام انتخابات

Pakistan Election 2024 تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدہ پر براجمان ہونے والے نواز شریف کی پاکستان کی سیاست میں واپسی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے بعد پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات 2024 کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ای ٹی وی بھارت کے التمش عدیل کی خاص رپورٹ۔

Pakistan General Election 2024
پاکستان عام انتخابات 2024
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 7, 2024, 4:37 PM IST

حیدرآباد: پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی مسائل سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے یہ انتخاب پاکستان کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔ یہ الیکشن پاکستان کا نا صرف مسقبل طے کرے گا بلکہ پاکستانی سیاست کے رخ و سمت کو بھی واضح کرے گا۔

پاکستان میں کم و بیش 44 سیاسی پارٹیاں انتخابی میدان میں ہیں لیکن حکومت یا اقتدار میں بیٹھنے کا تجربہ تو صرف تین بڑی پارٹیوں کے ہی پاس ہے، جس میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) دوسری آصف زرداری کی پاکستان پیپلزز پارٹی (پی پی پی) اور تیسری عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالنے پر یہ صاف نظر آتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے علاوہ تمام پارٹیوں کو انتخابی میدان میں کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت عمران خان اور ان کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پہلی پسند نہیں ہے۔

دراصل پاکستان میں سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا، جب سال 2018 میں منتخب ہوئے عمران خان کی حکومت کو سال 2022 میں پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور ان کی جگہ تیرہ مختلف پارٹیوں کے اتحاد کو پاکستان کا اقتدار سونپ دیا گیا، جس کی قیادت پی ایم ایل این کے سربراہ اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں عام انتخابات: ووٹنگ سے پہلے اہم لیڈروں پر ایک نظر

کسی بھی جمہوری حکومت کو اس کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے معزول کرنا پاکستان میں کوئی نئی روایت نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی کئی وزراءاعظم کو وقت سے پہلے معزول کیا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل نہیں کرسکا، لیکن اس بار عمران خان کی حکومت گرائے جانے سے ملک میں ایک الگ قسم کا ہی سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا۔

عمران خان نے اپنی حکومت کو گرانے کا سارا الزام امریکہ اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پڑ پھوڑ دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کرکے اپنے من موافق پالیسی پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ عمران خان کے بقول امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میرے روس کے دورے سے ناخوش تھے، جس کی وجہ سے مجھے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اسی بیانیہ کے ساتھ عمران خان عوام کی طرف گئے جس کو پاکستانی عوام نے بھی ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور عمران خان کے بیانیہ کو صحیح قرار دیا۔

عمران خان نے اپنے مذکورہ بیانیہ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک سائفر کو بطور دلیل عوام کے سامنے بھی پیش کر دیا۔ دراصل سائفر دو ممالک کے درمیان کوڈ بھاشا میں بھیجے گئے خط کو کہتے ہیں جسے دونوں ممالک کے وزارت خارجہ میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر وزارت خارجہ کے سیکریٹری اس خط کے مفہوم سے ملک کے سربراہ کو باخبر کرتے ہیں۔ اس سائفر کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کو ہٹانے کی دھمکی دی ہے، بصورت دیگر پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس سائفر کے بعد ہی عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں آنے والی نئی حکومت میں تیرہ پاڑٹیوں کا اتحاد تھا جس کی قیادت مسلم لیگ نون کے سربراہ شہباز شریف نے کی۔ ان تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت میں پاکستان مزید مشکلات میں گھرتا چلا گیا اور پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔ شہباز شریف کی حکومت میں جہاں اقتدار میں بیٹھے بڑے بڑے لیڈروں جیسے کہ شہباز شریف اور انکے بیٹے، نواز شریف اور ان کے لواحقین کے متعدد کیسز ختم کر دیے گئے یا وہ ان کیسز میں بَری ہوگئے۔ وہیں دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے متعدد لیڈروں پر سیکڑوں کیسز کے انبار لگا دیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں آزادانہ انتخابات پر الہان عمر نے اٹھائے سوال

عمران خان کی پارٹی کو اس وقت مزید دھچکا لگا جب ملک میں نو مئی کے واقعات رونما ہوئے۔ دراصل نو مئی کو جب عمران خان کو ایک عدالت سے گرفتار کیا گیا تو پورے ملک میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگیا۔ جس کی وجہ سے کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی اور فوجی نتصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد سے پی ٹی آئی کارکنوں اور ان کے لیڈروں کے خلاف زبردست کریک ڈاون شروع کیا گیا اور اس پرتشدد احتجاج کے لیے عمران خان اور اس کے لیڈروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جبکہ عمران خان اور اس کی پارٹی نو مئی کے واقعات کو سازش قرار دے کر اس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کررے ہیں۔

عمران خان کے خلاف تو اب تک تین کیسز سائفر، توشہ خانہ اور غیر شرعی نکاح کیس میں نچلی یا خصوصی عدالتوں سے ۳۱ سال قید کی سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گزشتہ برس اگست سے ہی قید خانے میں ہیں۔ عمران خان کے مخالفین اسے مکافات عمل قرار دے رہے ہیں اور عمران خان کے حمایتی ان تمام کیسز کو سیاسی دشمنی قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت عمران خان کے لیے سیاست میں وہ فیلڈ نظر نہیں آرہی ہے جو انھیں ۲۰۱۸ کے الیکشن میں میسر تھی کیونکہ اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے اور ان کے سیاسی مخالفین کے بقول اسی وجہ سے وہ وزیراعظم بھی منتخب ہوئے تھے، لیکن موجودہ وقت میں عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی اور نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت نے عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیے پاکستان میں زمین تنگ کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی پی ٹی آئی کے لیڈر ابھی بھی روپوش ہیں یا پھر سلاخوں کے پیچھے ہیں اور بہت سے لیڈر پریس کانفرنس کرکے پاڑٹی اور سیاست سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں عام انتخابات، سیاسی جماعتوں کا بھارت مخالف بیانات سے پرہیز کیوں؟

پاکستان میں یہ عام تصور ہے پاکستان کی فوج کا جس بھی سیاسی جماعت کے اوپر ہاتھ رہا ہے وہی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے اور ان ہی کے من پسند کا وزیراعظم بھی منتخب ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوتا ہے تو پھر وہاں مارشل لا نافذ کرکے فوج حکومت کرنے لگتی ہے اسی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج کی حکومت رہی ہے۔ اس تصور کو کیا عمران خان آنے والے انتخابات میں توڑ پائیں گے کیونکہ اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تو نہیں لیکن عوام کے چہیتے ضرور ہیں۔ پاکستان کے تمام سروے میں بھی عمران خان کی مقبولیت سب سے زیادہ دیکھائی جارہی ہے۔

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والا الیکشن ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو کافی زیادہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس الیکشن میں عمران خان کی پارٹی کو انتخابی میدان سے باہر نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کے انتخابی نشان کو چھین ضرور لیا گیا ہے اور خود عمران خان کو دس سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ان کی پارٹی کے لیڈر آزاد امیدوار کے طور پر مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوگئے ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان میں نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

حیدرآباد: پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی مسائل سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے یہ انتخاب پاکستان کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔ یہ الیکشن پاکستان کا نا صرف مسقبل طے کرے گا بلکہ پاکستانی سیاست کے رخ و سمت کو بھی واضح کرے گا۔

پاکستان میں کم و بیش 44 سیاسی پارٹیاں انتخابی میدان میں ہیں لیکن حکومت یا اقتدار میں بیٹھنے کا تجربہ تو صرف تین بڑی پارٹیوں کے ہی پاس ہے، جس میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) دوسری آصف زرداری کی پاکستان پیپلزز پارٹی (پی پی پی) اور تیسری عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالنے پر یہ صاف نظر آتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے علاوہ تمام پارٹیوں کو انتخابی میدان میں کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت عمران خان اور ان کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پہلی پسند نہیں ہے۔

دراصل پاکستان میں سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا، جب سال 2018 میں منتخب ہوئے عمران خان کی حکومت کو سال 2022 میں پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور ان کی جگہ تیرہ مختلف پارٹیوں کے اتحاد کو پاکستان کا اقتدار سونپ دیا گیا، جس کی قیادت پی ایم ایل این کے سربراہ اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں عام انتخابات: ووٹنگ سے پہلے اہم لیڈروں پر ایک نظر

کسی بھی جمہوری حکومت کو اس کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے معزول کرنا پاکستان میں کوئی نئی روایت نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی کئی وزراءاعظم کو وقت سے پہلے معزول کیا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل نہیں کرسکا، لیکن اس بار عمران خان کی حکومت گرائے جانے سے ملک میں ایک الگ قسم کا ہی سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا۔

عمران خان نے اپنی حکومت کو گرانے کا سارا الزام امریکہ اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پڑ پھوڑ دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کرکے اپنے من موافق پالیسی پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ عمران خان کے بقول امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میرے روس کے دورے سے ناخوش تھے، جس کی وجہ سے مجھے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اسی بیانیہ کے ساتھ عمران خان عوام کی طرف گئے جس کو پاکستانی عوام نے بھی ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور عمران خان کے بیانیہ کو صحیح قرار دیا۔

عمران خان نے اپنے مذکورہ بیانیہ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک سائفر کو بطور دلیل عوام کے سامنے بھی پیش کر دیا۔ دراصل سائفر دو ممالک کے درمیان کوڈ بھاشا میں بھیجے گئے خط کو کہتے ہیں جسے دونوں ممالک کے وزارت خارجہ میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر وزارت خارجہ کے سیکریٹری اس خط کے مفہوم سے ملک کے سربراہ کو باخبر کرتے ہیں۔ اس سائفر کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کو ہٹانے کی دھمکی دی ہے، بصورت دیگر پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس سائفر کے بعد ہی عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں آنے والی نئی حکومت میں تیرہ پاڑٹیوں کا اتحاد تھا جس کی قیادت مسلم لیگ نون کے سربراہ شہباز شریف نے کی۔ ان تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت میں پاکستان مزید مشکلات میں گھرتا چلا گیا اور پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔ شہباز شریف کی حکومت میں جہاں اقتدار میں بیٹھے بڑے بڑے لیڈروں جیسے کہ شہباز شریف اور انکے بیٹے، نواز شریف اور ان کے لواحقین کے متعدد کیسز ختم کر دیے گئے یا وہ ان کیسز میں بَری ہوگئے۔ وہیں دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے متعدد لیڈروں پر سیکڑوں کیسز کے انبار لگا دیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں آزادانہ انتخابات پر الہان عمر نے اٹھائے سوال

عمران خان کی پارٹی کو اس وقت مزید دھچکا لگا جب ملک میں نو مئی کے واقعات رونما ہوئے۔ دراصل نو مئی کو جب عمران خان کو ایک عدالت سے گرفتار کیا گیا تو پورے ملک میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگیا۔ جس کی وجہ سے کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی اور فوجی نتصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد سے پی ٹی آئی کارکنوں اور ان کے لیڈروں کے خلاف زبردست کریک ڈاون شروع کیا گیا اور اس پرتشدد احتجاج کے لیے عمران خان اور اس کے لیڈروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جبکہ عمران خان اور اس کی پارٹی نو مئی کے واقعات کو سازش قرار دے کر اس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کررے ہیں۔

عمران خان کے خلاف تو اب تک تین کیسز سائفر، توشہ خانہ اور غیر شرعی نکاح کیس میں نچلی یا خصوصی عدالتوں سے ۳۱ سال قید کی سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گزشتہ برس اگست سے ہی قید خانے میں ہیں۔ عمران خان کے مخالفین اسے مکافات عمل قرار دے رہے ہیں اور عمران خان کے حمایتی ان تمام کیسز کو سیاسی دشمنی قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت عمران خان کے لیے سیاست میں وہ فیلڈ نظر نہیں آرہی ہے جو انھیں ۲۰۱۸ کے الیکشن میں میسر تھی کیونکہ اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے اور ان کے سیاسی مخالفین کے بقول اسی وجہ سے وہ وزیراعظم بھی منتخب ہوئے تھے، لیکن موجودہ وقت میں عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی اور نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت نے عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیے پاکستان میں زمین تنگ کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی پی ٹی آئی کے لیڈر ابھی بھی روپوش ہیں یا پھر سلاخوں کے پیچھے ہیں اور بہت سے لیڈر پریس کانفرنس کرکے پاڑٹی اور سیاست سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں عام انتخابات، سیاسی جماعتوں کا بھارت مخالف بیانات سے پرہیز کیوں؟

پاکستان میں یہ عام تصور ہے پاکستان کی فوج کا جس بھی سیاسی جماعت کے اوپر ہاتھ رہا ہے وہی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے اور ان ہی کے من پسند کا وزیراعظم بھی منتخب ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوتا ہے تو پھر وہاں مارشل لا نافذ کرکے فوج حکومت کرنے لگتی ہے اسی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج کی حکومت رہی ہے۔ اس تصور کو کیا عمران خان آنے والے انتخابات میں توڑ پائیں گے کیونکہ اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تو نہیں لیکن عوام کے چہیتے ضرور ہیں۔ پاکستان کے تمام سروے میں بھی عمران خان کی مقبولیت سب سے زیادہ دیکھائی جارہی ہے۔

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والا الیکشن ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو کافی زیادہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس الیکشن میں عمران خان کی پارٹی کو انتخابی میدان سے باہر نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کے انتخابی نشان کو چھین ضرور لیا گیا ہے اور خود عمران خان کو دس سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ان کی پارٹی کے لیڈر آزاد امیدوار کے طور پر مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوگئے ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان میں نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.