ETV Bharat / opinion

راجیہ سبھا کے ارکان کا انتخاب - ELECTING RAJYA SABHA

ان دنوں ملک کی مختلف ریاستوں سے راجیہ سبھا کیلئے امیدواروں کو نامزد کرنے کا عمل جاری ہے۔ کئی سینئر سیاسی لیڈروں کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے منتخب کرنے کی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ راجیہ سبھا کے سابق سیکرٹری جنرل وویک کے اگنی ہوتری نے انتخاب اور نامزدگیوں کے اس عمل پر روشنی ڈالی ہے۔۔۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 14, 2024, 9:15 PM IST

وویک کے اگنی ہوتری

ان دنوں ملک کی مختلف ریاستوں سے راجیہ سبھا کیلئے امیدواروں کو نامزد کرنے کا عمل جاری ہے۔ کئی سینئر سیاسی لیڈروں کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے منتخب کرنے کی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ راجیہ سبھا کے سابق سیکرٹری جنرل وویک کے اگنی ہوتری نے انتخاب اور نامزدگیوں کے اس عمل پر روشنی ڈالی ہے۔۔۔

آئینی اسکیم اور حقیقت

ستائیس فروری 2024 کو، راجیہ سبھا کے وقفہ جاتی انتخابات 15 ریاستوں میں 56 سبکدوش ہونے والے اراکین کی جگہ نئے اراکین کو منتخب کرنے کیلئے عمل میں لائے جارہے ہیں۔ راجیہ سبھا کے ہر ممبر کو چھ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین ہند کے آرٹیکل 83 کی شق (1) کے مطابق کونسل آف اسٹیٹس (یعنی راجیہ سبھا) کو تحلیل نہیں کیا جائے گا، تاہم اس کے ایک تہائی ارکان ہر دوسرے سال ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ کار کافی تبدیل ہوچکا ہے اور راجیہ سبھا کے انتخابات چھ سال کے عرصے میں تین سے زیادہ مواقع پر کرائے جا رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں راجیہ سبھا کی رکنیت کیلئے انتکابات کا انعقاد تین سے زیادہ دفعہ کیا گیا جس کیلئے مختلف وجوہات کارفرما رہیں۔ کئی ریاستوں میں صدر راج کا نفاذ رہا یا ریاستی اسمبلی تحلیل ہوئی۔ کچھ ریاستی اسمبلیاں اسوقت تحلیل شدہ حالت میں تھیں جن راجیہ سبھا کے مقررہ انتخابات ہونے والے تھے، اور اس لیے ان ریاستوں کی راجیہ سبھا سیٹوں کے انتخابات بعد میں کرائے گئے۔ انتخابات کی اس حیران کن صورتحال نے مقررہ دوسالہ شیڈول کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔

ہندوستان کے آئین کی آرٹیکل 80 راجیہ سبھا کی تشکیل کا نظام فراہم کرتا ہے جس کے مطابق صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ نامزد کردہ 12 ممبران اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے زیادہ سے زیادہ 238 نمائندے نامزد کئے جاتے ہیں۔ 250 اراکین کی اس منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں، راجیہ سبھا میں اس وقت 245 اراکین ہیں اور آئین کے چوتھے شیڈول کے تحت منتخب اراکین کی تعداد 233 تک محدود کر دی گئی ہے۔ راجیہ سبھا کی سیٹوں کی تعداد کے بارے میں ریاستوں اور مرکزی زیرانتطام علاقوں کے درمیان، مقامی آبادی کے پس منظر میں ایک توازن مقرر کیا گیا ہے۔

انتخابی نظام

آرٹیکل 80 کی شق (4) کے مطابق، راجیہ سبھا میں ہر ریاست کے نمائندوں کا انتخاب ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب اراکین کے ذریعے "واحدقابل تبدیلی ووٹ کے ذریعے مناسب نمائندگی " کے نظام کے مطابق کیا جائے گا۔ آسان الفاظ میں "مناسب نمائندگی" کا مطلب ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کو ریاستی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد کے تناسب سے راجیہ سبھا کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ ممبران منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی کے ہر رکن کا ووٹ "واحد" لیکن "قابل تبدیلی" ہے۔ یوں بیلٹ پیپر میں الیکشن میں شامل تمام امیدواروں کے نام درج ہیں اور انتخاب کنندگان کو ان کے مقابلے میں اپنی ترجیح ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔ ووٹ دینے والے ایم ایل اے کو امیدواروں میں سے کسی ایک کے نام کے سامنے نمبر "1" لگانا ہوگا۔ اس کی دوسری ترجیحات صرف اس صورت میں عمل میں آتی ہیں جب مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی تعداد اس ریاست میں موجودہ خالی آسامیوں سے زیادہ ہو اور، گنتی کے پہلے دور میں، ایک یا زیادہ امیدواروں کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ ہوں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی امیدوار کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی کم از کم تعداد کا تعین کرنے کا فارمولا کیا ہے۔ یہ فارمولہ کچھ اس طرح ہے۔ اسمبلی میں ایم ایل اے کی کل تعداد کو امیدواروں کی کل تعداد جمع ایک سے تقسیم کیا جائے اور حاصل تقسیم میں ایک جمع کیا جائے۔ مثال کے طور پر، آئیے آئندہ انتخابات میں ریاست اتر پردیش کے منظر نامے کو دیکھتے ہیں۔ پہلے حقائق: ریاستی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 403 ہے۔ راجیہ سبھا کی نشستوں کی تعداد جن کے لیے انتخابات شیڈول ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی (یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں) کی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 252 ہے۔ اوپر دیے گئے فارمولے کے مطابق، ایک امیدوار کو راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہونے کے لیے درکار ووٹوں کی کم از کم تعداد کا تعین اس طرح ہوگا۔ کل تعداد یعنی 403 کو امیدواروں کی تعداد یعنی 10 جمع ایک سے تقسیم کریں اور حاصل شدہ عدد میں ایک جمع کریں۔ یہ 37.6 کا عدد بنتا ہے جسے 38 تصور کیا جائے گا۔ اس طرح بی جے پی کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے ہر ایک کو 38 ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ چونکہ اسمبلی میں بی جے پی کی تعداد 252 ہے، اس لیے وہ اپنے طور پر صرف 6 امیدواروں کو منتخب کروا سکتی ہے۔ لہذا اسے کم از کم 228 (38X6) ایم ایل ایز کو وہپ جاری کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ بیلٹ پیپر میں اپنی پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے ایک یا دوسرے کو اپنی پہلی ترجیح کا نشان دیں۔ باقی 24 ایم ایل ایز کے ووٹوں کے ساتھ پارٹی اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ایک اور سیٹ حاصل کر کے 38 کے جادوئی اعداد و شمار تک پہنچ سکتی ہے۔

دوسرے چیمبر کی کمزوری۔

دستور ساز اسمبلی میں بحث کے دوران، لوک ناتھ مشرا نے راجیہ سبھا کو ایک سنجیدہ ایوان، ایک جائزہ لینے والا ایوان، معیار کے لیے کھڑے ایک ایوان کے طور پر متعارف کیا تھا جس میں اراکین اپنی باتوں کو معیار کے مطابق ہپیش کرنے کا استحقاق رکھتے ہوں۔ ایم اننتسایانم ایانگر نے سوچا کہ اس طرح کےپلیٹ فارم پر ایسے لوگ ٹھوس بات کرنے کے اہل ہوں کے جو شاید عام انتکابات کے ذریعے منتخب نہیں ہوسکتے۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ہم کسی نہ کسی طرح راجیہ سبھا کے اصل وژن اور ڈیزائن سے کافی حد تک دور ہو گئے ہیں۔ راجیہ سبھا کی تخلیق میں آئین بنانے والوں نے ڈومیسائل کو ہٹاکر اسے قومی شکل دی تھی لیکن اب بتدریج یہ روح اس سے چھینی جارہی ہے۔

اصل میں عوامی نمائندگی ایکٹ، 1951 کے ذریعہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو بھی راجیہ سبھا کا انتخاب لڑنے کیلئے ڈومیسائل کی قید نہیں ہوگی یعنی ایک تنوع ہوگا جو ایوان بالا کی پہچان ہوتا۔ لیکن اس تصور کو عملی طور ختم کر دیا گیا ہے اور اسے، کسی حد تک، لوک سبھا کی طرح ایک ایوان بنا یا گیا ہے۔ اب یہ کونسل آف اسٹیٹس نہیں ہے بلکہ سیاستدانوں کی کونسل اور نامزد افراد کی کونسل بن گئی ہے۔اب عالم یہ ہے کہ منتخب ہونے والے تمام افرادبحیثیت مجموعی "تجربہ کار" افراد نہیں ہیں، جو پارلیمانی کارروائی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس طرح آئین کے طریقہ کار میں مداخلت کرنے کے بعد، ہم راجیہ سبھا سے اسکے اصل مینڈیٹ کے مطابق کارکردگی کی توقع نہیں کر سکتے۔ یہ بات قابل غور ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے اس ضمن میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔

ناقدین جن مسائل کو راجیہ سبھا سے جوڑتے ہیں وہ اکثر ہندوستانی پارلیمنٹ کے کام کاج کے بارے میں ہوتے ہیں۔ لہذا، تمام پارلیمانی رکاوٹوں اور قانون سازی کے کام میں کمی کے لیے راجیہ سبھا کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہوگا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں سچی ہندوستانی روایت میں تسلسل (راجیہ سبھا) اور تبدیلی (لوک سبھا) کا شاندار امتزاج ہے۔ دوسرے ایوان یا ایوان بالا کی مناسبت سے بحث شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ایوان کی اپنی تاریخ ہے۔ کہانی یہ ہے کہ 18ویں صدی کے آخر میں جب امریکی آئینی ڈھانچے کی تشکیل ہورہی تھی، تھامس جیفرسن نے ایک دن جارج واشنگٹن سے ناشتے کی میز پر مقننہ میں دو ایوانوں کے قیام کے خلاف اپنا اعتراض جتایا۔ واشنگٹن نے اس سے پوچھا، "آپ اس کافی کو اپنی رکابی میں کیوں ڈالتے ہیں؟" "اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے،" جیفرسن نے جواب دیا۔ ، جارج واشنگٹن نے جواب میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم کسی بھی مسودہ قانون کو ایوان بالا کی رکابی میں ڈال کر اسے ٹھنڈا کردیتے ہیں۔

(مضمون نگار ، آئی اے ایس (ریٹائرڈ) ہیں اور سکریٹری جنرل، راجیہ سبھا، پارلیمنٹ آف انڈیا رہ چکے ہیں۔ انکے ساتھ ای میل vkagnihotri25@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

وویک کے اگنی ہوتری

ان دنوں ملک کی مختلف ریاستوں سے راجیہ سبھا کیلئے امیدواروں کو نامزد کرنے کا عمل جاری ہے۔ کئی سینئر سیاسی لیڈروں کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے منتخب کرنے کی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ راجیہ سبھا کے سابق سیکرٹری جنرل وویک کے اگنی ہوتری نے انتخاب اور نامزدگیوں کے اس عمل پر روشنی ڈالی ہے۔۔۔

آئینی اسکیم اور حقیقت

ستائیس فروری 2024 کو، راجیہ سبھا کے وقفہ جاتی انتخابات 15 ریاستوں میں 56 سبکدوش ہونے والے اراکین کی جگہ نئے اراکین کو منتخب کرنے کیلئے عمل میں لائے جارہے ہیں۔ راجیہ سبھا کے ہر ممبر کو چھ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین ہند کے آرٹیکل 83 کی شق (1) کے مطابق کونسل آف اسٹیٹس (یعنی راجیہ سبھا) کو تحلیل نہیں کیا جائے گا، تاہم اس کے ایک تہائی ارکان ہر دوسرے سال ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ کار کافی تبدیل ہوچکا ہے اور راجیہ سبھا کے انتخابات چھ سال کے عرصے میں تین سے زیادہ مواقع پر کرائے جا رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں راجیہ سبھا کی رکنیت کیلئے انتکابات کا انعقاد تین سے زیادہ دفعہ کیا گیا جس کیلئے مختلف وجوہات کارفرما رہیں۔ کئی ریاستوں میں صدر راج کا نفاذ رہا یا ریاستی اسمبلی تحلیل ہوئی۔ کچھ ریاستی اسمبلیاں اسوقت تحلیل شدہ حالت میں تھیں جن راجیہ سبھا کے مقررہ انتخابات ہونے والے تھے، اور اس لیے ان ریاستوں کی راجیہ سبھا سیٹوں کے انتخابات بعد میں کرائے گئے۔ انتخابات کی اس حیران کن صورتحال نے مقررہ دوسالہ شیڈول کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔

ہندوستان کے آئین کی آرٹیکل 80 راجیہ سبھا کی تشکیل کا نظام فراہم کرتا ہے جس کے مطابق صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ نامزد کردہ 12 ممبران اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے زیادہ سے زیادہ 238 نمائندے نامزد کئے جاتے ہیں۔ 250 اراکین کی اس منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں، راجیہ سبھا میں اس وقت 245 اراکین ہیں اور آئین کے چوتھے شیڈول کے تحت منتخب اراکین کی تعداد 233 تک محدود کر دی گئی ہے۔ راجیہ سبھا کی سیٹوں کی تعداد کے بارے میں ریاستوں اور مرکزی زیرانتطام علاقوں کے درمیان، مقامی آبادی کے پس منظر میں ایک توازن مقرر کیا گیا ہے۔

انتخابی نظام

آرٹیکل 80 کی شق (4) کے مطابق، راجیہ سبھا میں ہر ریاست کے نمائندوں کا انتخاب ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب اراکین کے ذریعے "واحدقابل تبدیلی ووٹ کے ذریعے مناسب نمائندگی " کے نظام کے مطابق کیا جائے گا۔ آسان الفاظ میں "مناسب نمائندگی" کا مطلب ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کو ریاستی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد کے تناسب سے راجیہ سبھا کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ ممبران منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی کے ہر رکن کا ووٹ "واحد" لیکن "قابل تبدیلی" ہے۔ یوں بیلٹ پیپر میں الیکشن میں شامل تمام امیدواروں کے نام درج ہیں اور انتخاب کنندگان کو ان کے مقابلے میں اپنی ترجیح ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔ ووٹ دینے والے ایم ایل اے کو امیدواروں میں سے کسی ایک کے نام کے سامنے نمبر "1" لگانا ہوگا۔ اس کی دوسری ترجیحات صرف اس صورت میں عمل میں آتی ہیں جب مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی تعداد اس ریاست میں موجودہ خالی آسامیوں سے زیادہ ہو اور، گنتی کے پہلے دور میں، ایک یا زیادہ امیدواروں کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ ہوں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی امیدوار کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی کم از کم تعداد کا تعین کرنے کا فارمولا کیا ہے۔ یہ فارمولہ کچھ اس طرح ہے۔ اسمبلی میں ایم ایل اے کی کل تعداد کو امیدواروں کی کل تعداد جمع ایک سے تقسیم کیا جائے اور حاصل تقسیم میں ایک جمع کیا جائے۔ مثال کے طور پر، آئیے آئندہ انتخابات میں ریاست اتر پردیش کے منظر نامے کو دیکھتے ہیں۔ پہلے حقائق: ریاستی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 403 ہے۔ راجیہ سبھا کی نشستوں کی تعداد جن کے لیے انتخابات شیڈول ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی (یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں) کی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 252 ہے۔ اوپر دیے گئے فارمولے کے مطابق، ایک امیدوار کو راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہونے کے لیے درکار ووٹوں کی کم از کم تعداد کا تعین اس طرح ہوگا۔ کل تعداد یعنی 403 کو امیدواروں کی تعداد یعنی 10 جمع ایک سے تقسیم کریں اور حاصل شدہ عدد میں ایک جمع کریں۔ یہ 37.6 کا عدد بنتا ہے جسے 38 تصور کیا جائے گا۔ اس طرح بی جے پی کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے ہر ایک کو 38 ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ چونکہ اسمبلی میں بی جے پی کی تعداد 252 ہے، اس لیے وہ اپنے طور پر صرف 6 امیدواروں کو منتخب کروا سکتی ہے۔ لہذا اسے کم از کم 228 (38X6) ایم ایل ایز کو وہپ جاری کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ بیلٹ پیپر میں اپنی پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے ایک یا دوسرے کو اپنی پہلی ترجیح کا نشان دیں۔ باقی 24 ایم ایل ایز کے ووٹوں کے ساتھ پارٹی اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ایک اور سیٹ حاصل کر کے 38 کے جادوئی اعداد و شمار تک پہنچ سکتی ہے۔

دوسرے چیمبر کی کمزوری۔

دستور ساز اسمبلی میں بحث کے دوران، لوک ناتھ مشرا نے راجیہ سبھا کو ایک سنجیدہ ایوان، ایک جائزہ لینے والا ایوان، معیار کے لیے کھڑے ایک ایوان کے طور پر متعارف کیا تھا جس میں اراکین اپنی باتوں کو معیار کے مطابق ہپیش کرنے کا استحقاق رکھتے ہوں۔ ایم اننتسایانم ایانگر نے سوچا کہ اس طرح کےپلیٹ فارم پر ایسے لوگ ٹھوس بات کرنے کے اہل ہوں کے جو شاید عام انتکابات کے ذریعے منتخب نہیں ہوسکتے۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ہم کسی نہ کسی طرح راجیہ سبھا کے اصل وژن اور ڈیزائن سے کافی حد تک دور ہو گئے ہیں۔ راجیہ سبھا کی تخلیق میں آئین بنانے والوں نے ڈومیسائل کو ہٹاکر اسے قومی شکل دی تھی لیکن اب بتدریج یہ روح اس سے چھینی جارہی ہے۔

اصل میں عوامی نمائندگی ایکٹ، 1951 کے ذریعہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو بھی راجیہ سبھا کا انتخاب لڑنے کیلئے ڈومیسائل کی قید نہیں ہوگی یعنی ایک تنوع ہوگا جو ایوان بالا کی پہچان ہوتا۔ لیکن اس تصور کو عملی طور ختم کر دیا گیا ہے اور اسے، کسی حد تک، لوک سبھا کی طرح ایک ایوان بنا یا گیا ہے۔ اب یہ کونسل آف اسٹیٹس نہیں ہے بلکہ سیاستدانوں کی کونسل اور نامزد افراد کی کونسل بن گئی ہے۔اب عالم یہ ہے کہ منتخب ہونے والے تمام افرادبحیثیت مجموعی "تجربہ کار" افراد نہیں ہیں، جو پارلیمانی کارروائی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس طرح آئین کے طریقہ کار میں مداخلت کرنے کے بعد، ہم راجیہ سبھا سے اسکے اصل مینڈیٹ کے مطابق کارکردگی کی توقع نہیں کر سکتے۔ یہ بات قابل غور ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے اس ضمن میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔

ناقدین جن مسائل کو راجیہ سبھا سے جوڑتے ہیں وہ اکثر ہندوستانی پارلیمنٹ کے کام کاج کے بارے میں ہوتے ہیں۔ لہذا، تمام پارلیمانی رکاوٹوں اور قانون سازی کے کام میں کمی کے لیے راجیہ سبھا کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہوگا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں سچی ہندوستانی روایت میں تسلسل (راجیہ سبھا) اور تبدیلی (لوک سبھا) کا شاندار امتزاج ہے۔ دوسرے ایوان یا ایوان بالا کی مناسبت سے بحث شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ایوان کی اپنی تاریخ ہے۔ کہانی یہ ہے کہ 18ویں صدی کے آخر میں جب امریکی آئینی ڈھانچے کی تشکیل ہورہی تھی، تھامس جیفرسن نے ایک دن جارج واشنگٹن سے ناشتے کی میز پر مقننہ میں دو ایوانوں کے قیام کے خلاف اپنا اعتراض جتایا۔ واشنگٹن نے اس سے پوچھا، "آپ اس کافی کو اپنی رکابی میں کیوں ڈالتے ہیں؟" "اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے،" جیفرسن نے جواب دیا۔ ، جارج واشنگٹن نے جواب میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم کسی بھی مسودہ قانون کو ایوان بالا کی رکابی میں ڈال کر اسے ٹھنڈا کردیتے ہیں۔

(مضمون نگار ، آئی اے ایس (ریٹائرڈ) ہیں اور سکریٹری جنرل، راجیہ سبھا، پارلیمنٹ آف انڈیا رہ چکے ہیں۔ انکے ساتھ ای میل vkagnihotri25@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.