حیدرآباد (نیوز ڈیسک): آج کے شعر و ادب میں اشک کے عنوان پر مشہور شعراء کے چنندہ اشعار ملاحظہ کیجیے...
بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
آرزو لکھنوی
جو آ کے رکے دامن پہ صباؔ وہ اشک نہیں ہے پانی ہے
جو اشک نہ چھلکے آنکھوں سے اس اشک کی قیمت ہوتی ہے
صبا افغانی
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
میر تقی میر
مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے
انور مرزاپوری
انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے
یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے
وسیم بریلوی
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
مرزا غالب
جان تنہا پہ گزر جائیں ہزاروں صدمے
آنکھ سے اشک رواں ہوں یہ ضروری تو نہیں
ساحر لدھیانوی
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
فیض احمد فیض
رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں
اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے
آنند نرائن ملا
اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے
جگر مرادآبادی
کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
فیض احمد فیض
پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا
اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا
نامعلوم