ETV Bharat / literature

ہوئی مدت کی غالب مر گیا پر یاد آتا ہے - Mirza Asadullah Khan Ghalib

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 2, 2024, 8:03 AM IST

غالب وہ شخص ہیں جنہوں نے اردو غزل کو دوام بخشا ہے۔ جب تک اردو زندہ ہے غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' ملاحظہ فرمائیں...

Mirza Asadullah Khan Ghalib
غالب وہ شخص ہیں جنہوں نے اردو غزل کو دوام بخشا (Photo: Etv Bharat)

حیدرآباد: مرزا غالب کا پورا نام اسد اللہ خاں غالب ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں غالب کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ شادی کے بعد غالب دہلی میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہوگئے۔ غالب کو اردو زبان و ادب کا سب سے بڑا اور عظیم شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں اٹھارھویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔

پانچ برس کی کم عمری میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔ 13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' ملاحظہ فرمائیں...

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔ بقول غالب....

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن

ہوئی مدت کہ 'غالب' مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

حیدرآباد: مرزا غالب کا پورا نام اسد اللہ خاں غالب ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں غالب کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ شادی کے بعد غالب دہلی میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہوگئے۔ غالب کو اردو زبان و ادب کا سب سے بڑا اور عظیم شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں اٹھارھویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔

پانچ برس کی کم عمری میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔ 13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' ملاحظہ فرمائیں...

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔ بقول غالب....

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن

ہوئی مدت کہ 'غالب' مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.