ETV Bharat / literature

مجموعہ مقالات ”تین سو سالہ جشن میر“ سمیت چار کتابوں کا اجراء - Release of Books

Release of Teen Sau Sala Jashan Mir: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی شعبۂ اردو کی جانب سے شائع شدہ پروفیسر محمد علی جوہر اور ڈاکٹر سرور ساجد کی مرتب کردہ ”تین سو سالہ جشن میر، مجموعہ مقالات“ کا اجراء وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے ہاتھوں عمل میں آیا۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 7, 2024, 3:12 PM IST

Release of four books including collection of essays "Teen Sau Sala Jashan Mir"
مجموعہ مقالات ”تین سو سالہ جشن میر“ سمیت چار کتابوں کا اجراء (ETV Bharat Urdu)

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایڈمنسٹریٹیو بلاک ہال میں شعبۂ اردو کی جانب سے شائع شدہ پروفیسر محمد علی جوہر اور ڈاکٹر سرور ساجد کی مرتبہ ”تین سو سالہ جشن میر، مجموعہ مقالات“ کا اجراء وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی مزید تین کتابوں ”لطیف الدین احمد: حیات اور کارنامے“ مصنفہ ڈاکٹر محمد اقبال زرگر، ڈاکٹر نازیہ سنبل کی کتاب ”ممتاز حسین کی علمی و ادبی خدمات“، ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی اور غزالہ تحسین کی سوانحی کتاب ”چاک پر جلتا چراغ‘‘ کا بھی اجراء وائس چانسلر نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے ہاتھوں دو کتابوں کا اجراء - Amu Vc Releases Two Books

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے شعبۂ اردو کے اساتذہ و طلبا کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اردو کسی خاص طبقہ کی زبان نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی ایک طبقہ یا شعبہ کی اجارہ داری ہے، یہ زبان تو عوام کی اور محبت کی زبان ہے، جسے مقبول عام بنانے میں سرسید اور ان کے رفقاء نے اہم کردار تو ادا ہی کیا تھا، اس یونیورسٹی اور خصوصاً شعبۂ اردو نے بھی بے مثال کردار ادا کیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ یہ اس دانش گاہ کی خصوصیت ہے کہ ہر شعبہ کے اساتذہ اور طلبا کو اردو سے لگاؤ ہے جس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہمارے دلوں کی دھڑکن ہے، اس کی حیثیت ہماری زندگی میں سانس کی ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ انھوں نے چاروں کتابوں کے مصنفین و مرتبین کے ساتھ ہی خاص طور پر ان ریسرچ اسکالرز کو مبارک باد دی جن کے مضامین مجموعہ مقالات ”تین سو سالہ جشن میر“میں شامل ہیں۔ پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ پوری یونیورسٹی میں سب سے زیادہ ریسرچ اسکالرز کا اندراج شعبۂ اردو میں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زبان کس قدر مقبول ہے۔

شعبہ کے استاد پروفیسر محمد علی جوہر نے جشن میر کی اہمیت اور اس کے مجموعہ مقالات کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا مجموعہ مقالات ہے جس میں میر انتقادیات کا تدریجی ارتقاء دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی غزلیہ شاعری میں میر کا کوئی ثانی نہیں ہے، انہوں نے یہ اہمیت اپنے ڈکشن، لہجے اور گداختگی کی بنا پر حاصل کی ہے۔ تین سو برس کے بعد اگر میر یاد کیے جا رہے ہیں تو ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے دیگر کتابوں پر بھی گفتگو کی۔

ڈاکٹر معید رشیدی نے نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر نازیہ سنبل کی کتاب ممتاز حسین کی علمی و ادبی خدمات کا تعارف کرایا، ڈاکٹر مامون رشید نے چاک پر جلتا چراغ (حیات عبدالمتین) کا تعارف پیش کیا، ڈاکٹر محمد حنیف نے لطیف الدین احمد کی حیات و خدمات کا تعارف کراتے ہوئے اس کا جائزہ پیش کیا۔ جب کہ ڈاکٹر معید الرحمٰن نے مجموعہ مقالات تین سو سالہ جشن میر کا تعارف کراتے ہوئے اس کے محتویات پر روشنی ڈالی۔

صدر شعبۂ اردو پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج معاشرے میں اگرچہ اردو دوسری زبانوں کے مقابلہ بظاہر کمزور نظر آ رہی ہے۔ مگر حقیقت میں وہ کسی طور پر کمزور نہیں ہے، اردو میں میر و غالب سے لے کر اقبال اور بڑے بڑے جدید شعرا و ادباء ہیں جنہوں نے اس کی جڑوں کو مضبوط کیا ہے، اسی وجہ سے مخالفت کی آندھیاں اس زبان کو نقصان نہیں پہنچا پا رہی ہیں۔ اس زبان نے ہمیں کہنے کا سلیقہ عطا کیا ہے، اسی سلیقے نے اسے مقبول عام بنایا ہے اور آج دیار غیر میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آرہی ہیں جو اردو کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ پروگرام میں شعبۂ اردو کے علاوہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شریک ہوئے۔

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایڈمنسٹریٹیو بلاک ہال میں شعبۂ اردو کی جانب سے شائع شدہ پروفیسر محمد علی جوہر اور ڈاکٹر سرور ساجد کی مرتبہ ”تین سو سالہ جشن میر، مجموعہ مقالات“ کا اجراء وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی مزید تین کتابوں ”لطیف الدین احمد: حیات اور کارنامے“ مصنفہ ڈاکٹر محمد اقبال زرگر، ڈاکٹر نازیہ سنبل کی کتاب ”ممتاز حسین کی علمی و ادبی خدمات“، ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی اور غزالہ تحسین کی سوانحی کتاب ”چاک پر جلتا چراغ‘‘ کا بھی اجراء وائس چانسلر نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے ہاتھوں دو کتابوں کا اجراء - Amu Vc Releases Two Books

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے شعبۂ اردو کے اساتذہ و طلبا کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اردو کسی خاص طبقہ کی زبان نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی ایک طبقہ یا شعبہ کی اجارہ داری ہے، یہ زبان تو عوام کی اور محبت کی زبان ہے، جسے مقبول عام بنانے میں سرسید اور ان کے رفقاء نے اہم کردار تو ادا ہی کیا تھا، اس یونیورسٹی اور خصوصاً شعبۂ اردو نے بھی بے مثال کردار ادا کیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ یہ اس دانش گاہ کی خصوصیت ہے کہ ہر شعبہ کے اساتذہ اور طلبا کو اردو سے لگاؤ ہے جس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہمارے دلوں کی دھڑکن ہے، اس کی حیثیت ہماری زندگی میں سانس کی ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ انھوں نے چاروں کتابوں کے مصنفین و مرتبین کے ساتھ ہی خاص طور پر ان ریسرچ اسکالرز کو مبارک باد دی جن کے مضامین مجموعہ مقالات ”تین سو سالہ جشن میر“میں شامل ہیں۔ پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ پوری یونیورسٹی میں سب سے زیادہ ریسرچ اسکالرز کا اندراج شعبۂ اردو میں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زبان کس قدر مقبول ہے۔

شعبہ کے استاد پروفیسر محمد علی جوہر نے جشن میر کی اہمیت اور اس کے مجموعہ مقالات کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا مجموعہ مقالات ہے جس میں میر انتقادیات کا تدریجی ارتقاء دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی غزلیہ شاعری میں میر کا کوئی ثانی نہیں ہے، انہوں نے یہ اہمیت اپنے ڈکشن، لہجے اور گداختگی کی بنا پر حاصل کی ہے۔ تین سو برس کے بعد اگر میر یاد کیے جا رہے ہیں تو ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے دیگر کتابوں پر بھی گفتگو کی۔

ڈاکٹر معید رشیدی نے نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر نازیہ سنبل کی کتاب ممتاز حسین کی علمی و ادبی خدمات کا تعارف کرایا، ڈاکٹر مامون رشید نے چاک پر جلتا چراغ (حیات عبدالمتین) کا تعارف پیش کیا، ڈاکٹر محمد حنیف نے لطیف الدین احمد کی حیات و خدمات کا تعارف کراتے ہوئے اس کا جائزہ پیش کیا۔ جب کہ ڈاکٹر معید الرحمٰن نے مجموعہ مقالات تین سو سالہ جشن میر کا تعارف کراتے ہوئے اس کے محتویات پر روشنی ڈالی۔

صدر شعبۂ اردو پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج معاشرے میں اگرچہ اردو دوسری زبانوں کے مقابلہ بظاہر کمزور نظر آ رہی ہے۔ مگر حقیقت میں وہ کسی طور پر کمزور نہیں ہے، اردو میں میر و غالب سے لے کر اقبال اور بڑے بڑے جدید شعرا و ادباء ہیں جنہوں نے اس کی جڑوں کو مضبوط کیا ہے، اسی وجہ سے مخالفت کی آندھیاں اس زبان کو نقصان نہیں پہنچا پا رہی ہیں۔ اس زبان نے ہمیں کہنے کا سلیقہ عطا کیا ہے، اسی سلیقے نے اسے مقبول عام بنایا ہے اور آج دیار غیر میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آرہی ہیں جو اردو کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ پروگرام میں شعبۂ اردو کے علاوہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شریک ہوئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.