ETV Bharat / literature

'نئی نظم نیا سفر' ایک وژنری نقاد کی تحقیقی و تنقیدی دستاویز: پروفیسر عتیق اللہ - Nayi nazam naya safar book

پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کا انتخاب 'نئی نظم نیا سفر' ایک وژنری نقاد کی تحقیقی و تنقیدی دستاویز ہے۔ نظم کے حوالے سے یہ اب تک کی سب سے اہم کتاب ہے۔ نظمیہ شاعری پر ہمارے زمانے میں کوثر مظہری کی نظر سب سے گہری اور بسیط ہے۔

نئی نظم نیا سفر ایک وژنری نقاد کی تحقیقی و تنقیدی دستاویز: پروفیسر عتیق اللہ
نئی نظم نیا سفر ایک وژنری نقاد کی تحقیقی و تنقیدی دستاویز: پروفیسر عتیق اللہ
author img

By UNI (United News of India)

Published : Apr 29, 2024, 4:56 PM IST

نئی دہلی: ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ کتاب دراصل 1960 سے لے کر اب تک کی نظموں کا ایک انتخاب ہے۔ جس میں 155 شعرا کی 1182 نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کے مولف کوثر مظہری نے نظمیہ شاعری پر ایک مبسوط مقدمہ بھی رقم کیا ہے۔

مہمان خصوصی پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ سنجیدگی، یکسوئی، جنون اور عرق ریزی کوثر مظہری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ بلامبالغہ دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم پر آئندہ کوئی بھی تحقیقی و تنقیدی کام اس کتاب کے حوالے کے بغیر ناقص ہوگا۔

مہمان اعزازی پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ کوثر مظہری نے اس کتاب میں نظمیہ شاعری کی آدھی صدی کے سفر کو محفوظ کر دیاہے۔ ان نظموں کا انتخاب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ دراصل تاریخ، تہذیب، جمالیات اور عصری آشوب کی ایک ارتقائی داستان بھی ہے۔

مہمان ذی وقار پروفیسر نجمہ رحمانی نے اس تالیف کو بامعنی تنقیدی و تحقیقی دقت رسی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتخاب اپنی تمام تر ترجیحات اور تعصبات کے باوصف اردو نظم کے گزشتہ ساٹھ سالہ سفر کے تدریجی مراحل کو سمجھنے میں نہایت معاون ہے۔

پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس کتاب کی ترتیب و تالیف میں کوثر مظہری صاحب کی دس سال کی تگ و دو، محنت و مشقت اور ان کی شدید جنوں پروری کا گواہ ہوں۔ وہ جب کسی کام میں لگتے ہیں تو کس درجہ انہماک، استغراق اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مجتمع کر کے جھونک دینے کی کیفیت ہوتی ہے میں نے کوثر مظہری کی اس دیوانگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوثر مظہری کی یہ کتاب ترتیب و تدوین، انتخاب اور تحقیق کے اعلیٰ اور جدید مغربی معیارات کی کسوٹی پر کھری اترتی ہے۔ انھوں نے نظم نگاروں کے مختصر سوانحی خاکے میں بطور خاص والد کے نام پر جس شدت کے ساتھ زور دیا ہے وہ ان کی تحقیقی اخلاقیات اور تخلیقی شخصیت کی تشکیل میں سوانحی عوامل کے عمل دخل کا اعلامیہ ہے۔

صاحب کتاب پروفیسر کوثر مظہری نے بتایا کہ اس کتاب کا خاکہ تقریباً گزشتہ پندرہ برسوں سے میرے ذہن میں پنپ رہا تھا۔ جدید نظم سے میری فطری دلچسپی رہی ہے۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ مواد کے حصول اور بالخصوص شعرا کے اصل نام اور والد کے نام کی تحقیق میں مجھے حد درجہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس کے لیے میں نے پانچ سو سے زائد مجموعوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔

بزرگ فکشن نگار عشرت ظہیر نے کہا کہ انتخاب اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ اس کا مقدمہ اور شعرا کی فہرست اہل علم میں بحث و نظر کے کئی دریچے وا کرتی ہے اور یقینا اس پر مثبت اور منفی دونوں پہلو سے گفتگو ہوگی جو کہ اس کتاب کی اہمیت کی بھی دلیل ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر معید الرحمن نے نظمیہ شاعری کے انتخابات کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ مرتب نے اس کتاب میں گزشتہ خامیوں کے ازالے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے کے انتخابات علاقہ، دور اور تحریکات و رجحانات کے اسیر ہو کر رہ گئے۔

اس موقع پر ڈاکٹر خان محمد رضوان نے بھی صاحبِ کتاب کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے۔ جلسے کا اختتام عرشیہ پبلی کیشنز کی جانب سے ڈاکٹر جاوید حسن کے اظہار تشکر پر ہوا۔ تقریب میں ڈاکٹر اظہار ندیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر امتیاز رومی کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ بڑی تعداد میں شامل تھے۔

(یو این آئی)

نئی دہلی: ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ کتاب دراصل 1960 سے لے کر اب تک کی نظموں کا ایک انتخاب ہے۔ جس میں 155 شعرا کی 1182 نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کے مولف کوثر مظہری نے نظمیہ شاعری پر ایک مبسوط مقدمہ بھی رقم کیا ہے۔

مہمان خصوصی پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ سنجیدگی، یکسوئی، جنون اور عرق ریزی کوثر مظہری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ بلامبالغہ دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم پر آئندہ کوئی بھی تحقیقی و تنقیدی کام اس کتاب کے حوالے کے بغیر ناقص ہوگا۔

مہمان اعزازی پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ کوثر مظہری نے اس کتاب میں نظمیہ شاعری کی آدھی صدی کے سفر کو محفوظ کر دیاہے۔ ان نظموں کا انتخاب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ دراصل تاریخ، تہذیب، جمالیات اور عصری آشوب کی ایک ارتقائی داستان بھی ہے۔

مہمان ذی وقار پروفیسر نجمہ رحمانی نے اس تالیف کو بامعنی تنقیدی و تحقیقی دقت رسی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتخاب اپنی تمام تر ترجیحات اور تعصبات کے باوصف اردو نظم کے گزشتہ ساٹھ سالہ سفر کے تدریجی مراحل کو سمجھنے میں نہایت معاون ہے۔

پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس کتاب کی ترتیب و تالیف میں کوثر مظہری صاحب کی دس سال کی تگ و دو، محنت و مشقت اور ان کی شدید جنوں پروری کا گواہ ہوں۔ وہ جب کسی کام میں لگتے ہیں تو کس درجہ انہماک، استغراق اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مجتمع کر کے جھونک دینے کی کیفیت ہوتی ہے میں نے کوثر مظہری کی اس دیوانگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوثر مظہری کی یہ کتاب ترتیب و تدوین، انتخاب اور تحقیق کے اعلیٰ اور جدید مغربی معیارات کی کسوٹی پر کھری اترتی ہے۔ انھوں نے نظم نگاروں کے مختصر سوانحی خاکے میں بطور خاص والد کے نام پر جس شدت کے ساتھ زور دیا ہے وہ ان کی تحقیقی اخلاقیات اور تخلیقی شخصیت کی تشکیل میں سوانحی عوامل کے عمل دخل کا اعلامیہ ہے۔

صاحب کتاب پروفیسر کوثر مظہری نے بتایا کہ اس کتاب کا خاکہ تقریباً گزشتہ پندرہ برسوں سے میرے ذہن میں پنپ رہا تھا۔ جدید نظم سے میری فطری دلچسپی رہی ہے۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ مواد کے حصول اور بالخصوص شعرا کے اصل نام اور والد کے نام کی تحقیق میں مجھے حد درجہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس کے لیے میں نے پانچ سو سے زائد مجموعوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔

بزرگ فکشن نگار عشرت ظہیر نے کہا کہ انتخاب اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ اس کا مقدمہ اور شعرا کی فہرست اہل علم میں بحث و نظر کے کئی دریچے وا کرتی ہے اور یقینا اس پر مثبت اور منفی دونوں پہلو سے گفتگو ہوگی جو کہ اس کتاب کی اہمیت کی بھی دلیل ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر معید الرحمن نے نظمیہ شاعری کے انتخابات کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ مرتب نے اس کتاب میں گزشتہ خامیوں کے ازالے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے کے انتخابات علاقہ، دور اور تحریکات و رجحانات کے اسیر ہو کر رہ گئے۔

اس موقع پر ڈاکٹر خان محمد رضوان نے بھی صاحبِ کتاب کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے۔ جلسے کا اختتام عرشیہ پبلی کیشنز کی جانب سے ڈاکٹر جاوید حسن کے اظہار تشکر پر ہوا۔ تقریب میں ڈاکٹر اظہار ندیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر امتیاز رومی کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ بڑی تعداد میں شامل تھے۔

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.