دوحہ: منور رانا اس عہد کے ممتاز شاعر و ادیب تھے، وہ پوری اردو دنیا میں اپنے منفرد اسلوب شاعری اور انداز پیش کش کی وجہ سے بے حد مقبول تھے، کسی مشاعرے میں ان کی شمولیت اس مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات کاروان اردو کے صدر عتیق انظر نے منور رانا کے انتقال پر تعزیتی نشست میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ، وہ ایک بے باک اور حق گو شاعر تھے، نظریاتی طور پر وہ ترقی پسند تھے، انھوں نے رشتوں کے تقدس کو بطور خاص اپنی شاعری کا موضوع بنایا، ان کی شاعری کی طرح ان کی نثر میں بھی ایک خاص طرح کی شگفتگی اور ندرت پائی جاتی ہے۔ عتیق انظر نے اس موقع پر 2016 میں کاروان کے زیراہتمام منعقد "جشن منور رانا" اور مرحوم سے اپنے مراسم کا بھی ذکر کیا۔
کاروان کے جنرل سکریٹری محمد شاہد خان نے منور رانا کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے انھیں ایک حق گو، بے باک اور بہترین شاعر بتایا، انھوں نے کہا کہ منور رانا کی شاعری عام فہم، سادہ اور پر تاثیر ہے، ان کی نثر بھی بہت اچھی ہے، انھوں نے بتایا کہ ایک ملاقات میں منور رانا نے خود بھی کہا کہ ان کی نثر ان کی شاعری سے بہتر ہے۔
کاروان کے نائب صدر راشد عالم راشد نے کہا منور رانا بہت مقبول شاعر تھے اور ماں کے حوالے سے ان کی شاعری کو امتیاز حاصل ہے۔ سید شکیل احمد نے کہا کہ منور رانا عوامی شاعر تھے، جب وہ کلکتے میں تھے ان دنوں ان کا شعر:
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
بہت مشہور ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جرات اظہار ان کی گفتگو میں بھی تھی اور ان کی شاعری میں بھی، وہ دوستی اور دشمنی دونوں بہت اچھی طرح نبھاتے تھے، ان کا جانا مشاعروں کا بڑا خسارہ ہے۔
واضح رہے کہ منور رانا کے تقریبا دو درجن شعری اور نثری مجموعے چھپ چکے ہیں جن کے نام ہیں: نیم کے پھول، کہو ظل الہی سے، ماں، جنگلی پھول، منور رانا کی سو غزلیں، مہاجر نامہ، شہدابہ، سخن سرائے، کترن میرے خوابوں کی (شعری مجموعے)بغیر نقشے کا مکان، سفید جنگلی کبوتر، چہرے یاد رہتے ہیں، ڈھلان سے اترتے ہوے، پھنک تال(نثری مجموعے)غزل گاؤں، پیپل چھاؤں، مور پاؤں، سب اس کے لیے، بدن سرائے، گھر اکیلا ہو گیا، پھر کبیر، نئے موسم کے پھول(دیو ناگری میں)۔ منور رانا کو ان کے شعری مجموعے "شہدابہ" کےلیے 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ (یو این آئی)