ETV Bharat / literature

جگر مرادآبادی نے پہلی مرتبہ شاعری کو ترنم کے ساتھ پیش کرنے کا کمال دکھایا - Jigar Moradabadi

Jigar Moradabadi poetry rhythm for first time علی سکندر جگر مرادآبادی غزل کے مشہور شاعر ہیں۔ جگر مرادآبادی کی پیدائش مرادآباد میں ہوئی اور ضلع گونڈا میں ان کا انتقال ہوا۔ حالانکہ جگر مرادآبادی کی شخصیت کسی کی محتاج نہیں مگر ان کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 25, 2024, 5:40 PM IST

جگر مرادآبادی نے پہلی مرتبہ شاعری کو ترنم کے ساتھ پیش کرنے کا کمال دکھایا

مرادآباد: علی سکندر جگر مرادآبادی ایک عظیم اور مشہور شاعر گزرے ہیں جنہوں نے غزل کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے ایک نئی عبارت لکھی۔ جگر مرادآبادی اپنے دور کے ایسے شاعر تھے جنہوں نے اردو شاعری میں غزل کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ اردو شاعری میں اُنکی خدمات کے لئے انہیں حکومت کی جانب سے 1958 میں ساہتیہ اکیڈمی اوارڈ سے نوازا گیا علاوہ ازیں علامہ اقبال کے بعد جگر مرادآبادی ہی ایسے شاعر ہیں جن کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ جگر صاحب کی پیدائش چھ اپريل 1890 کو مرادآباد میں ہوئی۔ مرادآباد کے محلہ لال باغ میں آج بھی ان کے لواحقین قیام کرتے ہیں۔


بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور جگر مرادآبادی فاؤنڈیشن کے صدر منصور عثمانی کہتے ہیں کہ جگر مرادآبادی پر تبصرہ کرنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ وہ کہتے ہیں کہ جگر مرادآبادی اپنے دور کے معتبر اور مقبول شاعر تھے اور شہنشاہ غزل کے طور پر انکا ذکر کتابوں اور اردو ادب کی تاریخ میں ملتا ہے۔ منصور عثمانی کہتے ہیں کہ جگر صاحب کا انداز بیاں ایسا تھا کہ جب وہ مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرتے تو سننے والے ان کے کلام کے دیوانے ہو جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے شعراء اپنے کلام کو ترنم کے ساتھ پیش نہیں کرتے تھے مگر جگر مرادآبادی نے کلام کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے اردو ادب کو ایک نیا راستہ دیا۔ جگر کا کلام اور اس پر ان کا بہترین ترنم دونوں کو اس درجہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ جگر شہنشاہ غزل کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

منصور عثمانی نے مزید ذکر کیا کہ آج جو شعراء مشاعروں میں معاوضہ اور اعزازیہ پاتے ہیں وہ جگر مرادآبادی کی ہی دین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جگر ملک کے محب قوم کے درد مند تھے۔ دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ادارے کی تعمیر کے وقت جگر صاحب نے شرط لگا دی تھی کہ داعی مشاعرہ دعوت دینے سے قبل 50روپے اس درسگاہ کے نام منی آرڈر کریں اور اس رسید کے ساتھ مجھ سے رابطہ کریں۔ منصور عثمانی صاحب نے جگر مرادآبادی کی شراب کی لت کے علاوہ ان کی زندگی کے اور بھی واقعات کا ذکر کیا جس سے ان کی شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہے۔

جگر مرادآبادی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ان کے رشتے کے پوتے سید ذوالفقار علی بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ اکثر جگر مرادآبادی کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ دوسروں کے لیے جگر مرادآبادی کے دل میں ہمدردی کا وہ ہے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ایک مشاعرے سے لوٹتے وقت وہ تانگے کے پیسے اپنے شاگرد سے ادا کرنے کے لیے کہتے ہیں وجہ معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کسی نے ان کی جیب سے پیسے نکال لیے تھے مگر جگر مرادآبادی نے اس کو صرف اس لیے نہیں ٹوکا کہ شاید یہ کوئی ضرورت مند ہوگا۔ شراب کی لت نے ان کو رشتہ داروں سے دور کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے باہر امین صاحب والی مسجد کے پاس ہی ایک کنواں تھا جہاں جگر مرادآبادی نہایا کرتے تھے اور جس کو کوچہ جگر بھی کہا جاتا ہے۔ یہیں ان کا دیوان خانہ ہوا کرتا تھا جہاں وہ رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کئی وجوہات رہیں جس کی بنا پر جگر مرادآباد سے چلے گئے اور آخر تک واپس نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں ہمیں ملال ہے کہ ہم ان کو وہ اہم اہمیت اور عزت نہیں دے پائے جس کے وہ حقدار تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جگر مرادآبادی نے حج کے سفر کے بعد شراب کی لت سے چھٹکارا پا لیا تھا اور اس وقت ایک شعر بھی کہا تھا کہ چلو دیکھ آئیں تماشہ جگر کا سنا ہے کہ کافر مسلماں ہوا ہے۔

جگر مرادآبادی نے پہلی مرتبہ شاعری کو ترنم کے ساتھ پیش کرنے کا کمال دکھایا

مرادآباد: علی سکندر جگر مرادآبادی ایک عظیم اور مشہور شاعر گزرے ہیں جنہوں نے غزل کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے ایک نئی عبارت لکھی۔ جگر مرادآبادی اپنے دور کے ایسے شاعر تھے جنہوں نے اردو شاعری میں غزل کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ اردو شاعری میں اُنکی خدمات کے لئے انہیں حکومت کی جانب سے 1958 میں ساہتیہ اکیڈمی اوارڈ سے نوازا گیا علاوہ ازیں علامہ اقبال کے بعد جگر مرادآبادی ہی ایسے شاعر ہیں جن کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ جگر صاحب کی پیدائش چھ اپريل 1890 کو مرادآباد میں ہوئی۔ مرادآباد کے محلہ لال باغ میں آج بھی ان کے لواحقین قیام کرتے ہیں۔


بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور جگر مرادآبادی فاؤنڈیشن کے صدر منصور عثمانی کہتے ہیں کہ جگر مرادآبادی پر تبصرہ کرنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ وہ کہتے ہیں کہ جگر مرادآبادی اپنے دور کے معتبر اور مقبول شاعر تھے اور شہنشاہ غزل کے طور پر انکا ذکر کتابوں اور اردو ادب کی تاریخ میں ملتا ہے۔ منصور عثمانی کہتے ہیں کہ جگر صاحب کا انداز بیاں ایسا تھا کہ جب وہ مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرتے تو سننے والے ان کے کلام کے دیوانے ہو جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے شعراء اپنے کلام کو ترنم کے ساتھ پیش نہیں کرتے تھے مگر جگر مرادآبادی نے کلام کو ترنم کے ساتھ پیش کر کے اردو ادب کو ایک نیا راستہ دیا۔ جگر کا کلام اور اس پر ان کا بہترین ترنم دونوں کو اس درجہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ جگر شہنشاہ غزل کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

منصور عثمانی نے مزید ذکر کیا کہ آج جو شعراء مشاعروں میں معاوضہ اور اعزازیہ پاتے ہیں وہ جگر مرادآبادی کی ہی دین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جگر ملک کے محب قوم کے درد مند تھے۔ دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ادارے کی تعمیر کے وقت جگر صاحب نے شرط لگا دی تھی کہ داعی مشاعرہ دعوت دینے سے قبل 50روپے اس درسگاہ کے نام منی آرڈر کریں اور اس رسید کے ساتھ مجھ سے رابطہ کریں۔ منصور عثمانی صاحب نے جگر مرادآبادی کی شراب کی لت کے علاوہ ان کی زندگی کے اور بھی واقعات کا ذکر کیا جس سے ان کی شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہے۔

جگر مرادآبادی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ان کے رشتے کے پوتے سید ذوالفقار علی بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ اکثر جگر مرادآبادی کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ دوسروں کے لیے جگر مرادآبادی کے دل میں ہمدردی کا وہ ہے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ایک مشاعرے سے لوٹتے وقت وہ تانگے کے پیسے اپنے شاگرد سے ادا کرنے کے لیے کہتے ہیں وجہ معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کسی نے ان کی جیب سے پیسے نکال لیے تھے مگر جگر مرادآبادی نے اس کو صرف اس لیے نہیں ٹوکا کہ شاید یہ کوئی ضرورت مند ہوگا۔ شراب کی لت نے ان کو رشتہ داروں سے دور کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے باہر امین صاحب والی مسجد کے پاس ہی ایک کنواں تھا جہاں جگر مرادآبادی نہایا کرتے تھے اور جس کو کوچہ جگر بھی کہا جاتا ہے۔ یہیں ان کا دیوان خانہ ہوا کرتا تھا جہاں وہ رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کئی وجوہات رہیں جس کی بنا پر جگر مرادآباد سے چلے گئے اور آخر تک واپس نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں ہمیں ملال ہے کہ ہم ان کو وہ اہم اہمیت اور عزت نہیں دے پائے جس کے وہ حقدار تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جگر مرادآبادی نے حج کے سفر کے بعد شراب کی لت سے چھٹکارا پا لیا تھا اور اس وقت ایک شعر بھی کہا تھا کہ چلو دیکھ آئیں تماشہ جگر کا سنا ہے کہ کافر مسلماں ہوا ہے۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.