گیا: گیا شہر میں واقع مرزا غالب کالج میں پروفیسر ڈاکٹر ارتضی کریم سابق ڈائریکٹر این سی پی یو ایل کے اعزاز میں استقبالیہ سیمینار کا انعقاد ہوا۔ کالج کے شعبہ اردو کی جانب سے ’اردو شاعری کا منظر نامہ غزل کے حوالے سے‘ کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں موضوع کے ماہر و دہلی یونیورسیٹی شعبہ اُردو کے صدر ڈاکٹر پروفیسر سید ارتضیٰ کریم نے نہایت سنجیدگی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اردو شاعری کا منظر نامہ رنگین ہے، اس میں بہت سے رنگ ہیں۔ پوری تاریخ کو ایک شعر میں دکھایا جا سکتا ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ 700-800 سال پرانی ہے۔ وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ سیاسی اور سماجی حالات کا اثر شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو شاعری میں سیاست، طنز اور پوری زندگی ہے۔
دوران گفتگو اُنہوں نے مرزا غالب کالج کی خدمات اور خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی۔ گورننگ باڈی کے سکریٹری شبیع عارفین شمسی کے حوالے سے ارتضیٰ کریم نے کہا کہ شبیع عارفین شمسی کی کارآمد قیادت کی وجہ سے آج کالج تعلیم کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ انہوں نے کالج کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بہت ہی قابل ستائش کردار ادا کیا ہے۔
اس پروگرام میں کالج کے انچارج پرنسپل ڈاکٹر محمد علی حسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر سید ارتضیٰ کریم کا تعلق گیا شہر سے ہے۔ آپ نے اردو دنیا کو بہت کچھ دیا ہے، دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ سے متعلق ایک خاص بات یہ ہے کہ آپ مرزا غالب کالج کے طالب علم رہے ہیں۔
اس پروگرام میں گورننگ باڈی کے سکریٹری شبیع عارفین شمسی نے ماہرِ مضمون کو شال اور مومنٹو پیش کر کے خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر انہوں نے شعبہ اردو کے پروگرام کی تعریف کی اور آئندہ بھی اس طرح کے پروگراموں میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے بتایا کہ پروفیسر سید ارتضیٰ کریم اردو دنیا کی ایک بڑی شخصیت ہیں۔ ان کی 40 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے مضامین کی مہارت کا شعبہ فکشن کی تنقید رہا ہے۔ این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر رہتے ہوئے انہوں نے اردو دنیا کی بڑی خدمت کی اور یہ خدمت آج بھی جاری ہے
خصوصی لیکچر میں سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت شعبہ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم وارث نے کی۔ شکریہ کلمات ہندی شعبہ کی ڈاکٹر نصرت جبی صدیقی نے ادا کئے۔ اس موقع پر طلباء و طالبات کے ساتھ کالج اور سوسائٹی کے کئی معززین بھی موجود تھے
یہ بھی پڑھیں: