ETV Bharat / literature

گیا: مرزاغالب کالج کی گورننگ باڈی میں تبدیلی اور عہدوں کی تقسیم - Mirza Ghalib College Gaya

بہار میں چند ہی اقلیتی کالج ہیں تاہم وہ عام کالجوں سے زیادہ سرخیوں میں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ انتظامیہ میں عہدوں کے لیے رسہ کشی اور آپسی انتشار و تنازع ہے۔ ان چند میں مگدھ کمشنری کے پانچ اضلاع کا واحد اقلیتی لسانی کالج 'مرزا غالب کالج' سرفہرست ہے۔ انتظامیہ کے لیے یہاں بھی ہنگامہ آرائی عام بات ہے۔ مرزا غالب کالج میں ایک بار پھر نئی جی بی' گورننگ باڈی' کی تشکیل ہوئی ہے۔

MIRZA GHALIB COLLEGE GAYA
گیا: مرزاغالب کالج کے اقتدار میں تبدیلی اور عہدے تقسیم (Photo: Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 17, 2024, 6:35 PM IST

Updated : May 18, 2024, 2:54 PM IST

گیا: مرزاغالب کالج کے اقتدار میں تبدیلی اور عہدے تقسیم (Video: Etv Bharat)

گیا: ریاست بہار کے گیا شہر میں واقع مرزا غالب کالج کی گورننگ باڈی کی تشکیل کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے۔ عہدے تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایجوکیشنسٹ کا بھی عہدہ پر ہو چکا ہے۔ مرزا غالب کالج گورننگ باڈی کے نئے صدر عزیز احمد منيری منتخب ہوئے ہیں، جبکہ سابق کمیٹی کے سکریٹری شبیع عارفین شمسی پر ایک بار پھر گورننگ باڈی کے اراکین نے اعتماد ظاہر کیا ہے۔ جبکہ نائب صدر کے عہدے پر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان منتخب ہوئے ہیں۔ جوائنٹ سکریٹری محمد اورنگ زیب کو بنایا گیا ہے۔ ایجوکیشنسٹ کے عہدے پر سید محمد عبیداللہ کا انتخاب ہوا ہے۔

غور طلب ہے کہ تمام عہدے پر کیے جانے کے بعد جی بی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جی بی کالج کی ترقی اور فلاح کے لیے متحرک ہو چکی ہے۔ پہلی ترجیحات میں اکیڈمک ماحول کو بہتر سے بہتر کیا جائے گا۔ ساتھ ہی کالج کے زیر التوا معاملوں کو بھی فوری طور پر حل کرنے کے لیے جی بی کوشاں ہے۔

گورننگ باڈی کے نو منتخب نائب صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان سے کالج کی تعلیم بحالی اور کمیٹی سمیت کئی اہم مسائل پر ای ٹی وی بھارت اردو نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ سابق کمیٹی کو گزشتہ دو ماہ قبل چیئرمین کونسل مرزا غالب نے کونسل کی ایک غیر معمولی میٹنگ طلب کی تھی اور کونسل کے اراکین نے متفقہ طور پر جی بی کو معطل کرنے کا فیصلہ لیا تھا، اس کی کئی وجوہات تھیں جس پر کونسل مرزا غالب کالج کو فیصلہ لینا انتہائی ضروری تھا۔

کیونکہ حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ مگدھ یونیورسٹی نے کالج کے سرکاری اہل کاروں کی تنخواہ تک روک دی تھی، بینک آپریشن بند کر دیا گیا تھا، کالج اس کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہو رہا تھا، حالات ناگفتہ ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے کونسل مرزا غالب کالج نے فیصلہ کیا کہ کمیٹی کو معطل کر دیا جائے۔ اس کی جگہ پر ایک ایڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور وہی گزشتہ دو ماہ سے کالج کے انتظام و انصرام کو انجام دینے میں مصروف تھی، لیکن اب باضابطہ کمیٹی 'گورننگ باڈی' تشکیل ہو چکی ہے۔ عہدے بھی تقسیم کر دیے گئے ہیں۔

اس دوران جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اس کمیٹی کے اراکین میں کچھ ایسے بھی ممبران ہیں جنہوں نے کچھ ماہ قبل یا کچھ سالوں پہلے مرزا غالب کالج کی کمیٹی کے کام کاج اور اس کے کردار پر نہ صرف سوالات کھڑے کئے تھے۔ بلکہ انکی جانب سے معاملہ عدالت تک پہنچایا گیا تھا، عدالت میں مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، خاص طور سے بحالی کو لے کر کمیٹی پر سوال کھڑے کیے گئے تھے۔ لیکن اب وہی کمیٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مخالف اور موافق دونوں کو ساتھ رکھ کر کالج کو آگے بڑھانے کی کوشش کونسل مرزا غالب کالج نے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل مرزا غالب کالج نے دونوں فریقین کو لیکر جی بی کی تشکیل کی ہے۔

اہم یہ نہیں کہ ہر کوئی کسی کی بات پر متفق ہو لیکن اہم یہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ یا کام اکثریت کے اتفاق سے ہو، جمہوریت کے انتخابی نظام میں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ کسی کی کوئی جگہ مستقل فکس نہیں ہے، آپ پر اعتماد ہوگا تو وقت زیادہ ملیں گے اور اگر آپ سے اعتماد اُٹھ جائے گا تو آپ اپنے عہدے سے سابق ہو جائیں گے، تبدیلی اچھی ہو تو اس سے اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں، لیکن اسکے لیے ذاتی مفادات کو ترک کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ اس سے پہلے کی جو جی بی تھی اس سے کچھ غلط فیصلے ہوئے تھے، میں خود ذاتی طور پر ان کے کچھ فیصلوں کے خلاف تھا، لیکن ماضی کی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر کوشش ہوگی کہ جی بی بالکل صاف ستھرے انداز میں چلے اور سکریٹری جی بی کا بھی یہی ماننا ہے کہ اگر ہم لوگ اپنے مفاد کو بھول جائیں، جی بی میں آنے کے بعد لوگوں کا ایک انٹرسٹ جاگتا ہے کہ ہم جی بی کے ممبر ہو گئے، تو اب داخلہ سے لیکر بحالی تک ہم فائدے اٹھائیں۔ اگر اس سے ہم لوگ اوپر اُٹھ گئے تو یقینا اچھا کام ہوگا اور سبھی چیزوں میں شفافیت پیدا ہوگی۔ اسلئے ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مرزا غالب کالج میں غیر تدریسی عہدوں کے لیے بحالی نکلی ہوئی ہے، نئی کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گشت کرنے لگی ہیں کہ بحالی میں اقرباء پروری ہوگی اور اس وجہ سے بحالی میں انصاف اُن اُمیدواروں کے ساتھ نہیں ہوگا، جو بحالی کے اصول وضوابط کے اہل تو ہونگے لیکن انکا سلیکشن نہیں ہوگا، اس طرح کی کئی قیاس آرائی ہورہی ہے۔

جس پر نائب صدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، منصفانہ رویہ ہی ہوگا، اقرباء پروری بھی نہیں ہوگی، منصفانہ طریقے سے بحالی کے عمل کو انجام دیا جائےگا، اُن سے جب پوچھا گیا کہ کیا بحالی میں سکریٹری اور جی بی پر اپنے لوگوں کو بحال کرنے کا دباؤ ہوگا؟ جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ سکریٹری پر بحالی کو لے کر معاشرہ، تعلقات اور اراکین کے دباؤ ہوں گے کہ ان کے امیدواروں کا سلیکشن ہو۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ صرف سکریٹری یا کوئی فرد تنہا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بحالی کے لیے سلیکشن کمیٹی ہوتی ہے اس کا متفقہ فیصلہ ہی قابل قبول ہوتا ہے۔

جی بی کی پہلی کوشش ہے کہ اکیڈمک ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جائے اور بنیادی ضرورت جو منہ پھاڑ کے کھڑی ہے کہ کالج کا انٹرسیکشن بند ہو چکا ہے اور انٹر میں مرزا غالب کالج میں 2700 طلبہ ہوتے تھے۔ یہ 27 سو طلبہ کہاں جائیں گے؟ اور گیا شہر کے اداروں کا جو حال ہے وہ عیاں ہے کہ گیا کالج، انوگرہ کالج، جگجیون کالج اور سبھی ڈگری کالجوں کا انٹر سیکشن بند کردیا گیا ہے۔ پریشانی اس کی ہے کہ کسی صورت سے انٹر کو کالج دوبارہ سے حاصل کرے اور اس کے لیے جی بی کے افراد پوری کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل بہار حکومت نے انٹر سیکشن کو بہار بورڈ سے منسلک کردیا ہے اور اس وجہ سے سبھی ڈگری کالجوں سے انٹر سیکشن بند ہوگیا ہے۔

غور طلب ہے کہ مرزا غالب کالج خود مختار اقلیتی ادارہ ہے۔ اس کمیٹی کے کل 11 ممبران ہوتے ہیں جس میں 7 افراد کو کونسل مرزا غالب کالج منتخب کرتی ہے جبکہ دو ٹی آر ہوتے ہیں، جنہیں ٹیچر اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ ایک ماہر تعلیم' ایجوکیشنسٹ' ہوتا ہے جسے سبھی اراکین منتخب کرتے ہیں اور اس میں ایک رکن کے طور پر کالج کا پرنسپل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مرزا غالب کالج کی سابق کمیٹی چار سال کی اپنی مدت کو پورا کرتی ، لیکن اس سے قبل ہی کاؤنسل کی جانب سے معطل کرنے کا اعلان چیئرمین اشفاق علی نے کر دیا تھا۔ تاہم اب نئی کمیٹی کی تشکیل کی کاروائی مکمل ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

گیا: مرزاغالب کالج کے اقتدار میں تبدیلی اور عہدے تقسیم (Video: Etv Bharat)

گیا: ریاست بہار کے گیا شہر میں واقع مرزا غالب کالج کی گورننگ باڈی کی تشکیل کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے۔ عہدے تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایجوکیشنسٹ کا بھی عہدہ پر ہو چکا ہے۔ مرزا غالب کالج گورننگ باڈی کے نئے صدر عزیز احمد منيری منتخب ہوئے ہیں، جبکہ سابق کمیٹی کے سکریٹری شبیع عارفین شمسی پر ایک بار پھر گورننگ باڈی کے اراکین نے اعتماد ظاہر کیا ہے۔ جبکہ نائب صدر کے عہدے پر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان منتخب ہوئے ہیں۔ جوائنٹ سکریٹری محمد اورنگ زیب کو بنایا گیا ہے۔ ایجوکیشنسٹ کے عہدے پر سید محمد عبیداللہ کا انتخاب ہوا ہے۔

غور طلب ہے کہ تمام عہدے پر کیے جانے کے بعد جی بی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جی بی کالج کی ترقی اور فلاح کے لیے متحرک ہو چکی ہے۔ پہلی ترجیحات میں اکیڈمک ماحول کو بہتر سے بہتر کیا جائے گا۔ ساتھ ہی کالج کے زیر التوا معاملوں کو بھی فوری طور پر حل کرنے کے لیے جی بی کوشاں ہے۔

گورننگ باڈی کے نو منتخب نائب صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان سے کالج کی تعلیم بحالی اور کمیٹی سمیت کئی اہم مسائل پر ای ٹی وی بھارت اردو نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ سابق کمیٹی کو گزشتہ دو ماہ قبل چیئرمین کونسل مرزا غالب نے کونسل کی ایک غیر معمولی میٹنگ طلب کی تھی اور کونسل کے اراکین نے متفقہ طور پر جی بی کو معطل کرنے کا فیصلہ لیا تھا، اس کی کئی وجوہات تھیں جس پر کونسل مرزا غالب کالج کو فیصلہ لینا انتہائی ضروری تھا۔

کیونکہ حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ مگدھ یونیورسٹی نے کالج کے سرکاری اہل کاروں کی تنخواہ تک روک دی تھی، بینک آپریشن بند کر دیا گیا تھا، کالج اس کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہو رہا تھا، حالات ناگفتہ ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے کونسل مرزا غالب کالج نے فیصلہ کیا کہ کمیٹی کو معطل کر دیا جائے۔ اس کی جگہ پر ایک ایڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور وہی گزشتہ دو ماہ سے کالج کے انتظام و انصرام کو انجام دینے میں مصروف تھی، لیکن اب باضابطہ کمیٹی 'گورننگ باڈی' تشکیل ہو چکی ہے۔ عہدے بھی تقسیم کر دیے گئے ہیں۔

اس دوران جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اس کمیٹی کے اراکین میں کچھ ایسے بھی ممبران ہیں جنہوں نے کچھ ماہ قبل یا کچھ سالوں پہلے مرزا غالب کالج کی کمیٹی کے کام کاج اور اس کے کردار پر نہ صرف سوالات کھڑے کئے تھے۔ بلکہ انکی جانب سے معاملہ عدالت تک پہنچایا گیا تھا، عدالت میں مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، خاص طور سے بحالی کو لے کر کمیٹی پر سوال کھڑے کیے گئے تھے۔ لیکن اب وہی کمیٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مخالف اور موافق دونوں کو ساتھ رکھ کر کالج کو آگے بڑھانے کی کوشش کونسل مرزا غالب کالج نے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل مرزا غالب کالج نے دونوں فریقین کو لیکر جی بی کی تشکیل کی ہے۔

اہم یہ نہیں کہ ہر کوئی کسی کی بات پر متفق ہو لیکن اہم یہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ یا کام اکثریت کے اتفاق سے ہو، جمہوریت کے انتخابی نظام میں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ کسی کی کوئی جگہ مستقل فکس نہیں ہے، آپ پر اعتماد ہوگا تو وقت زیادہ ملیں گے اور اگر آپ سے اعتماد اُٹھ جائے گا تو آپ اپنے عہدے سے سابق ہو جائیں گے، تبدیلی اچھی ہو تو اس سے اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں، لیکن اسکے لیے ذاتی مفادات کو ترک کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ اس سے پہلے کی جو جی بی تھی اس سے کچھ غلط فیصلے ہوئے تھے، میں خود ذاتی طور پر ان کے کچھ فیصلوں کے خلاف تھا، لیکن ماضی کی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر کوشش ہوگی کہ جی بی بالکل صاف ستھرے انداز میں چلے اور سکریٹری جی بی کا بھی یہی ماننا ہے کہ اگر ہم لوگ اپنے مفاد کو بھول جائیں، جی بی میں آنے کے بعد لوگوں کا ایک انٹرسٹ جاگتا ہے کہ ہم جی بی کے ممبر ہو گئے، تو اب داخلہ سے لیکر بحالی تک ہم فائدے اٹھائیں۔ اگر اس سے ہم لوگ اوپر اُٹھ گئے تو یقینا اچھا کام ہوگا اور سبھی چیزوں میں شفافیت پیدا ہوگی۔ اسلئے ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مرزا غالب کالج میں غیر تدریسی عہدوں کے لیے بحالی نکلی ہوئی ہے، نئی کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گشت کرنے لگی ہیں کہ بحالی میں اقرباء پروری ہوگی اور اس وجہ سے بحالی میں انصاف اُن اُمیدواروں کے ساتھ نہیں ہوگا، جو بحالی کے اصول وضوابط کے اہل تو ہونگے لیکن انکا سلیکشن نہیں ہوگا، اس طرح کی کئی قیاس آرائی ہورہی ہے۔

جس پر نائب صدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، منصفانہ رویہ ہی ہوگا، اقرباء پروری بھی نہیں ہوگی، منصفانہ طریقے سے بحالی کے عمل کو انجام دیا جائےگا، اُن سے جب پوچھا گیا کہ کیا بحالی میں سکریٹری اور جی بی پر اپنے لوگوں کو بحال کرنے کا دباؤ ہوگا؟ جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ سکریٹری پر بحالی کو لے کر معاشرہ، تعلقات اور اراکین کے دباؤ ہوں گے کہ ان کے امیدواروں کا سلیکشن ہو۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ صرف سکریٹری یا کوئی فرد تنہا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بحالی کے لیے سلیکشن کمیٹی ہوتی ہے اس کا متفقہ فیصلہ ہی قابل قبول ہوتا ہے۔

جی بی کی پہلی کوشش ہے کہ اکیڈمک ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جائے اور بنیادی ضرورت جو منہ پھاڑ کے کھڑی ہے کہ کالج کا انٹرسیکشن بند ہو چکا ہے اور انٹر میں مرزا غالب کالج میں 2700 طلبہ ہوتے تھے۔ یہ 27 سو طلبہ کہاں جائیں گے؟ اور گیا شہر کے اداروں کا جو حال ہے وہ عیاں ہے کہ گیا کالج، انوگرہ کالج، جگجیون کالج اور سبھی ڈگری کالجوں کا انٹر سیکشن بند کردیا گیا ہے۔ پریشانی اس کی ہے کہ کسی صورت سے انٹر کو کالج دوبارہ سے حاصل کرے اور اس کے لیے جی بی کے افراد پوری کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل بہار حکومت نے انٹر سیکشن کو بہار بورڈ سے منسلک کردیا ہے اور اس وجہ سے سبھی ڈگری کالجوں سے انٹر سیکشن بند ہوگیا ہے۔

غور طلب ہے کہ مرزا غالب کالج خود مختار اقلیتی ادارہ ہے۔ اس کمیٹی کے کل 11 ممبران ہوتے ہیں جس میں 7 افراد کو کونسل مرزا غالب کالج منتخب کرتی ہے جبکہ دو ٹی آر ہوتے ہیں، جنہیں ٹیچر اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ ایک ماہر تعلیم' ایجوکیشنسٹ' ہوتا ہے جسے سبھی اراکین منتخب کرتے ہیں اور اس میں ایک رکن کے طور پر کالج کا پرنسپل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مرزا غالب کالج کی سابق کمیٹی چار سال کی اپنی مدت کو پورا کرتی ، لیکن اس سے قبل ہی کاؤنسل کی جانب سے معطل کرنے کا اعلان چیئرمین اشفاق علی نے کر دیا تھا۔ تاہم اب نئی کمیٹی کی تشکیل کی کاروائی مکمل ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : May 18, 2024, 2:54 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.