ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کیا قیدی انجینئر رشید کی پارٹی اسمبلی انتخابات میں بھی حیرت انگیز کامیابی حاصل کرے گی؟ - Er Rashid Impact on Polls

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 3, 2024, 5:07 PM IST

Updated : Sep 3, 2024, 5:16 PM IST

انجینئر رشید نے لوک سبھا انتخابات میں عمر عبداللہ جیسے قد آور لیڈر کو شکست فاش دیکر نہ صرف تاریخ رقم کی بلکہ کشمیر کے موروثی سیاستدانوں کے ایوانوں میں کھلبلی مچائی۔ رشید کی عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) پھر سے اسمبلی انتخابات میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کیلئے پر تول رہی ہے۔ انجینئر ابھی تک جیل میں ہے لیکن کیا ان کا جادو اسمبلی الیکشن میں بھی چلے گا، اسکے بارے میں ای ٹی وی بھارت کے نامہ نگار میر فرحت نے مختلف الخیال لوگوں سے بات کی ہے۔

ا
انجینئر رشید اس وقت تہاڑ جیل میں ہے (File Photo)

سرینگر: جموں و کشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ سے عوامی اتحاد پارٹی کی جیت ایک تاریخ ساز کامیابی ہے کیونکہ اس میں پارٹی کے محبوس رہنما عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید نے صرف جیت درج نہیں کی بلکہ کشمیر کے دو بڑے سیاستدانوں - عمر عبداللہ اور سجاد لون - کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ عوامی اتحاد پارٹی ّ(اے آئی پی) اب اسی تجربے کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں دہرانے کی امید میں ایک اور سرپرائز دینے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں جٹ گئی ہے۔

اے آئی پی نے اب تک 22 اسمبلی حلقوں میں 22 امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور وہ کشمیر اور جموں کی سیٹوں پر کل 52 امیدوار کھڑے کرے گی۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی نشستوں پر عمر عبداللہ کو 2 لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔

غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے تحت تہاڑ جیل میں ہونے کی وجہ سے، ان کے کالج جانے والے بیٹے ابرار رشید اور اسرار نے بارہمولہ کی سیٹوں پر اپنی مہم چلائی، ووٹروں سے ’’تہاڑ کا بدلہ جیل سے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے، اپنے قیدی باپ کو ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ اے آئی پی نے پلوامہ اور اننت ناگ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں جنہیں 2019 تک عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اور انتخابی طور پر اسے 2014 تک پی ڈی پی کے گڑھ کے طور پر جانا جاتا تھا جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔

انجینئر رشید کی پارٹی نے دوسرے مرحلے کے لیے بھی امیدواروں کی فہرست جاری کی
انجینئر رشید کی پارٹی نے دوسرے مرحلے کے لیے بھی امیدواروں کی فہرست جاری کی (ای ٹی وی بھارت)

جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں، جسے عسکریت پسندوں کا گڑھ جانا جاتا تھا، انجینئر کے بڑے بیٹے ابرار رشید نے اے آئی پی کے امیدوار الطاف بٹ کے لیے دو روڑ شوز کا انعقاد کیا۔ عوامی اتحاد پارٹی کا چناؤ نشان پریشر کوکر ہے۔ انکے حمایتی ککر ککر، پریشر ککر، کے نعرے لگاتے ہوئے کریم آباد گاؤں میں نمودار ہوئے۔ تقریباً سوا سو لوگوں کے ہجوم نے ابرار کو سنا جب وہ کریم آباد اور زڈورہ گاؤں میں بٹ کے لیے مہم چلا رہے تھے۔

پلوامہ ضلع کا کریم آباد گاؤں 2019 تک ایک حساس اور عسکریت پسندوں کے حامیوں پر مشتمل بستی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس گاؤں میں انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کو داخل ہونے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔

ا
این سی، پی ڈی پی سمیت کئی پارٹیوں کے ’باغی‘ لیڈران اے آئی پی میں شامل ہوئے۔ (ای ٹی وی بھارت)

زڈورہ اور اس کے آس پاس کے دیہات میں الطاف بٹ کو ایک سماجی کارکن کے طور پر جانا جاتا ہے، ان کی یہ پہچان انہیں الیکشن میں ووٹ بٹورنے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ الطاف بٹ جیل میں بند حریت رہنما بشیر احمد بھٹ عرف پیر سیف اللہ کے بھائی ہیں۔ پیر سیف اللہ ایک سابق عسکریت پسند تھے جو جیل کی سزا کاٹنے کے بعد علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرنس میں شامل ہو گئے تھے اور حریت چیئرمین مرحوم سید علی گیلانی کے خاص معتمد تھے۔

ایک سرکاری ملازم نے ای ٹی وی بھارت کو شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ انجینئر رشید کا فیکٹر جنوبی کشمیر میں کام کر سکتا ہے اور انجینئر رشید کے نام پر ایک لہر پیدا ہونی کے امکانات ہیں۔ کشمیر میں سرکاری ملازمین سیاسی مسائل پر بات نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کوئی تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ایسے تبصرے کرنے والوں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے جس میں ملازمت سے معطلی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر اسمبلی انتخابات میں مقامی چہروں اور مقامی امیدواروں کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ ان سے ذاتی قربت رکھتے ہیں۔

ابرار کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی کشمیر کی نشستوں پر اپنے امیدواروں کے لیے مہم چلائیں گے اور امید ظاہر کی کہ ان کے والد کا عنصر انتخابات میں کام کرے گا۔ ابرار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایاکہ انہیں اچھا ردعمل مل رہا ہے اور انکی پارٹی کے امیدوار زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ انکے مطابق انہیں امید ہے کہ جنوبی اور وسطی کشمیر کے ووٹر عوامی اتحاد پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہم کتنی سیٹیں جیتیں گے کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی تجزیہ نہیں کیا ہے۔ انجینئر رشید اسمبلی میں تھے اور اب ہم نے 50 انجینئر رشید (لیجسلیٹرز) کو اسمبلی میں بھیجنا ہے جس کے لیے ہم بہت محنت کر رہے ہیں۔

تنظیم کے امیدوار

اے آئی پی نے توصیف نثار کو اننت ناگ، عاقب مشتاق کو اننت ناگ ویسٹ، سہیل بٹ کو دیوسر، کولگام، محمد عارف ڈار کو دمحال ہانجی پورہ، کولگام، ہلال احمد ملک ڈورو، عبدالقیوم میر پانپور، صوفی اقبال کو پلوامہ سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ 18 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ترال کے لیے ڈاکٹر ہربخش سنگھ عرف شینٹی، زینہ پورہ کے لیے مولوی فیاض وگے، شوپیاں کے لیے راجہ وحید، کوکرناگ (ایس ٹی) سے گجر کارکن چودھری انور پھامڑا کو بطور امیدوار کھڑا کیا ہے۔

ای
انجینئر رشید کے فرزند، ابرار نے لوک سبھا الیکشن میں والد کے لیے تشہیری مہم چلائی تھی (فائل فوٹو)

دوسرے مرحلے کے امیدواروں میں گاندربل سے ممتاز تاجر اور کے سی سی اینڈ آئی کے سابق صدر شیخ عاشق، کنگن سے ایڈوکیٹ راجہ اشرف علی خان، حضرت بل سے محمد مقبول بیگ، حبہ کدل سے سابق ٹریڈ یونین لیڈر اشتیاق قادری، چرار شریف سے ایڈوکیٹ جاوید احمد حبی شامل ہیں۔ نصیر احمد راتھر (باٹنی کے سابق لیکچرر) واگورہ، کریری سے۔ بانڈی پورہ سے شہزادہ پرویز امیدوار ہیں، جو اے آئی پی کے بانی رکن ہیں جبکہ بارہمولہ سے کانگریس کے سابق ایم ایل اے شعیب لون اس پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔ بانڈی پورہ کے سونہ واری اسمبلی حلقہ سے پی ڈی پی کے سابق ایم ایل سی یاسر ریشی نے اے آئی پی جوائن کی ہے۔ یاسر ریشی کافی دولت مند آدمی ہے لیکن انکی شمولیت سے انجینئر رشید کی پارٹی کی عوامی ساکھ متاثر ہونے کا امکان ہے کیونکہ پارٹی کے عہدیدار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ وہ موجودہ علاقائی جماعتوں کے سیاستدانوں کو پارٹی میں جگہ نہیں دیں گے۔

عاشق کا مقابلہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ کے خلاف گاندربل میں ہوگا، جو روایتی طور پر این سی کا گڑھ ہے۔ اشتیاق قادری کو این سی کی سابق خاتون رکن اسمبلی شمیمہ فردوس کے خلاف میدان میں اتارا جائے گا۔

اے آئی پی نے اب تک 22 اسمبلی حلقوں کے امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید اعلان کیا جائے گا۔ ان امیدواروں میں ڈاکٹر ہربخش سنگھ پلوامہ ضلع کے ترال اسمبلی حلقہ سے ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ وہ پی ڈی پی کے ترجمان تھے۔ انہیں امید تھی کہ پی ڈی پی انہیں ترال میں منڈیٹ دے گی کیونکہ ترال میں سکھ آبادی ایک اہم فیکٹر ہے تاہم پی ڈی پی نے کسی اور کو منڈیٹ دیا جس سے دلبرداشتہ ہوکر ہربخش سنگھ نے پارٹی ہی چھوڑ دی اور اگلے ہی روز اے آئی پی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ عبد القیوم میر اور راجہ وحید پلوامہ اور شوپیاں اضلاع سے ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ دونوں کو پی ڈی پی نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عمر احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ نوجوان جو پارلیمانی انتخابات کے دوران جذباتی طور پر ابرار رشید کی طرف راغب ہوئے، اب شعوری طور انکا ساتھ دے رہے ہیں۔ انکے مطابق اب کوئی جذباتی ووٹ نہیں، اس وقت (پارلیمنٹ کے انتخابات میں) لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی کیونکہ ان کے بیٹے نے ان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے والد کو ووٹ دیں تاکہ وہ جیل سے رہا ہو جائیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ لوگوں نے سمجھا کہ ہمارا جیل جانا اور وہاں سے باہر آنا ایک قانونی جنگ ہے، اب یہ پورے جموں و کشمیر کا معاملہ ہے، ہم یہاں ٹوٹا ہوا مینڈیٹ نہیں چاہتے۔

عوامی اتحاد پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ

اشتیاق قادری جو اے آئی پی کی سیاسی امور کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں نے کہا کہ وہ کشمیر اور جموں کی 52 نشستوں پر امیدوار کھڑے کر رہے ہیں۔ قادری، جو سابق ٹریڈ یونین لیڈر ہیں، نے کہا کہ اے آئی پی پورے کشمیر میں ایسی کارکردگی کی توقع رکھتی ہے جو انہوں نے بارہمولہ کی پارلیمانی نشست میں دکھائی تھی۔ قادری کے مطابق انکی پارٹی کو اپوزیشن کے لیڈر اسلئے بھاجپا کی پارٹی کہنے لگے ہیں کیونکہ انکے پاس ان کے خلاف بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹی نے بجبہاڑہ - سری گفوارہ سیٹ پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے جہاں پی ڈی پی نے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو میدان میں اتارا ہے۔ اس سیٹ پر صرف این سی، پی ڈی پی اور بی جے پی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، اس سیٹ پر کوئی آزاد امیدوار نہیں لڑ رہا ہے۔ پارٹی کے ترجمان انعام الحق نے اس بارے میں ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ محبوبہ مفتی کے کزن سرور مفتی بجبہاڑہ سے انکے پارٹی کے امیدوار بننے والے تھے لیکن عین آخری مرحلے پر انہوں نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی اور ہمارے پاس کوئی اور فوری آپشن دستیاب نہیں ہوا۔

اے آئی پی کے ایک سابق رکن نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہیں کوئی ایسا تنظیمی ڈھانچہ نہیں ملا جو کشمیری نوجوانوں کے جزبات کی عکاسی کرتا ہو اسلئے انہوں نے اے پی آئی کا دامن تھاما اور اس الیکشن میں بھی وہ ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔ سابق ممبر نے کہا کہ اے آئی پی فی الحال چند لوگوں کا ایک ’’ریگ ٹیگ‘‘ گروپ ہے جن میں پرنس پرویز، اشتیاق قادری، فردوس بابا شامل ہیں جو اس کے معاملات چلاتے ہیں۔ حال ہی میں، اس کے سابق کارکن انعام النبی پارٹی کے چیف ترجمان کے طور پر واپس آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: باپ کا پرانا میدان، بیٹے کا نیا خواب: ڈاؤن ٹاؤن کے ساگر میں کس کی ہوگی جیت؟ - NC Father Son Duo Vs PDP

جنوبی کشمیر میں آزاد امیدوار کیا پڑیں گے طاقتور سیاست دانوں پر بھاری ؟ - JK Assembly Elections

سرینگر: جموں و کشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ سے عوامی اتحاد پارٹی کی جیت ایک تاریخ ساز کامیابی ہے کیونکہ اس میں پارٹی کے محبوس رہنما عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید نے صرف جیت درج نہیں کی بلکہ کشمیر کے دو بڑے سیاستدانوں - عمر عبداللہ اور سجاد لون - کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ عوامی اتحاد پارٹی ّ(اے آئی پی) اب اسی تجربے کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں دہرانے کی امید میں ایک اور سرپرائز دینے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں جٹ گئی ہے۔

اے آئی پی نے اب تک 22 اسمبلی حلقوں میں 22 امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور وہ کشمیر اور جموں کی سیٹوں پر کل 52 امیدوار کھڑے کرے گی۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی نشستوں پر عمر عبداللہ کو 2 لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔

غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے تحت تہاڑ جیل میں ہونے کی وجہ سے، ان کے کالج جانے والے بیٹے ابرار رشید اور اسرار نے بارہمولہ کی سیٹوں پر اپنی مہم چلائی، ووٹروں سے ’’تہاڑ کا بدلہ جیل سے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے، اپنے قیدی باپ کو ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ اے آئی پی نے پلوامہ اور اننت ناگ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں جنہیں 2019 تک عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اور انتخابی طور پر اسے 2014 تک پی ڈی پی کے گڑھ کے طور پر جانا جاتا تھا جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔

انجینئر رشید کی پارٹی نے دوسرے مرحلے کے لیے بھی امیدواروں کی فہرست جاری کی
انجینئر رشید کی پارٹی نے دوسرے مرحلے کے لیے بھی امیدواروں کی فہرست جاری کی (ای ٹی وی بھارت)

جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں، جسے عسکریت پسندوں کا گڑھ جانا جاتا تھا، انجینئر کے بڑے بیٹے ابرار رشید نے اے آئی پی کے امیدوار الطاف بٹ کے لیے دو روڑ شوز کا انعقاد کیا۔ عوامی اتحاد پارٹی کا چناؤ نشان پریشر کوکر ہے۔ انکے حمایتی ککر ککر، پریشر ککر، کے نعرے لگاتے ہوئے کریم آباد گاؤں میں نمودار ہوئے۔ تقریباً سوا سو لوگوں کے ہجوم نے ابرار کو سنا جب وہ کریم آباد اور زڈورہ گاؤں میں بٹ کے لیے مہم چلا رہے تھے۔

پلوامہ ضلع کا کریم آباد گاؤں 2019 تک ایک حساس اور عسکریت پسندوں کے حامیوں پر مشتمل بستی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس گاؤں میں انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کو داخل ہونے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔

ا
این سی، پی ڈی پی سمیت کئی پارٹیوں کے ’باغی‘ لیڈران اے آئی پی میں شامل ہوئے۔ (ای ٹی وی بھارت)

زڈورہ اور اس کے آس پاس کے دیہات میں الطاف بٹ کو ایک سماجی کارکن کے طور پر جانا جاتا ہے، ان کی یہ پہچان انہیں الیکشن میں ووٹ بٹورنے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ الطاف بٹ جیل میں بند حریت رہنما بشیر احمد بھٹ عرف پیر سیف اللہ کے بھائی ہیں۔ پیر سیف اللہ ایک سابق عسکریت پسند تھے جو جیل کی سزا کاٹنے کے بعد علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرنس میں شامل ہو گئے تھے اور حریت چیئرمین مرحوم سید علی گیلانی کے خاص معتمد تھے۔

ایک سرکاری ملازم نے ای ٹی وی بھارت کو شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ انجینئر رشید کا فیکٹر جنوبی کشمیر میں کام کر سکتا ہے اور انجینئر رشید کے نام پر ایک لہر پیدا ہونی کے امکانات ہیں۔ کشمیر میں سرکاری ملازمین سیاسی مسائل پر بات نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کوئی تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ایسے تبصرے کرنے والوں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے جس میں ملازمت سے معطلی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر اسمبلی انتخابات میں مقامی چہروں اور مقامی امیدواروں کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ ان سے ذاتی قربت رکھتے ہیں۔

ابرار کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی کشمیر کی نشستوں پر اپنے امیدواروں کے لیے مہم چلائیں گے اور امید ظاہر کی کہ ان کے والد کا عنصر انتخابات میں کام کرے گا۔ ابرار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایاکہ انہیں اچھا ردعمل مل رہا ہے اور انکی پارٹی کے امیدوار زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ انکے مطابق انہیں امید ہے کہ جنوبی اور وسطی کشمیر کے ووٹر عوامی اتحاد پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہم کتنی سیٹیں جیتیں گے کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی تجزیہ نہیں کیا ہے۔ انجینئر رشید اسمبلی میں تھے اور اب ہم نے 50 انجینئر رشید (لیجسلیٹرز) کو اسمبلی میں بھیجنا ہے جس کے لیے ہم بہت محنت کر رہے ہیں۔

تنظیم کے امیدوار

اے آئی پی نے توصیف نثار کو اننت ناگ، عاقب مشتاق کو اننت ناگ ویسٹ، سہیل بٹ کو دیوسر، کولگام، محمد عارف ڈار کو دمحال ہانجی پورہ، کولگام، ہلال احمد ملک ڈورو، عبدالقیوم میر پانپور، صوفی اقبال کو پلوامہ سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ 18 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ترال کے لیے ڈاکٹر ہربخش سنگھ عرف شینٹی، زینہ پورہ کے لیے مولوی فیاض وگے، شوپیاں کے لیے راجہ وحید، کوکرناگ (ایس ٹی) سے گجر کارکن چودھری انور پھامڑا کو بطور امیدوار کھڑا کیا ہے۔

ای
انجینئر رشید کے فرزند، ابرار نے لوک سبھا الیکشن میں والد کے لیے تشہیری مہم چلائی تھی (فائل فوٹو)

دوسرے مرحلے کے امیدواروں میں گاندربل سے ممتاز تاجر اور کے سی سی اینڈ آئی کے سابق صدر شیخ عاشق، کنگن سے ایڈوکیٹ راجہ اشرف علی خان، حضرت بل سے محمد مقبول بیگ، حبہ کدل سے سابق ٹریڈ یونین لیڈر اشتیاق قادری، چرار شریف سے ایڈوکیٹ جاوید احمد حبی شامل ہیں۔ نصیر احمد راتھر (باٹنی کے سابق لیکچرر) واگورہ، کریری سے۔ بانڈی پورہ سے شہزادہ پرویز امیدوار ہیں، جو اے آئی پی کے بانی رکن ہیں جبکہ بارہمولہ سے کانگریس کے سابق ایم ایل اے شعیب لون اس پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔ بانڈی پورہ کے سونہ واری اسمبلی حلقہ سے پی ڈی پی کے سابق ایم ایل سی یاسر ریشی نے اے آئی پی جوائن کی ہے۔ یاسر ریشی کافی دولت مند آدمی ہے لیکن انکی شمولیت سے انجینئر رشید کی پارٹی کی عوامی ساکھ متاثر ہونے کا امکان ہے کیونکہ پارٹی کے عہدیدار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ وہ موجودہ علاقائی جماعتوں کے سیاستدانوں کو پارٹی میں جگہ نہیں دیں گے۔

عاشق کا مقابلہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ کے خلاف گاندربل میں ہوگا، جو روایتی طور پر این سی کا گڑھ ہے۔ اشتیاق قادری کو این سی کی سابق خاتون رکن اسمبلی شمیمہ فردوس کے خلاف میدان میں اتارا جائے گا۔

اے آئی پی نے اب تک 22 اسمبلی حلقوں کے امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید اعلان کیا جائے گا۔ ان امیدواروں میں ڈاکٹر ہربخش سنگھ پلوامہ ضلع کے ترال اسمبلی حلقہ سے ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ وہ پی ڈی پی کے ترجمان تھے۔ انہیں امید تھی کہ پی ڈی پی انہیں ترال میں منڈیٹ دے گی کیونکہ ترال میں سکھ آبادی ایک اہم فیکٹر ہے تاہم پی ڈی پی نے کسی اور کو منڈیٹ دیا جس سے دلبرداشتہ ہوکر ہربخش سنگھ نے پارٹی ہی چھوڑ دی اور اگلے ہی روز اے آئی پی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ عبد القیوم میر اور راجہ وحید پلوامہ اور شوپیاں اضلاع سے ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ دونوں کو پی ڈی پی نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عمر احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ نوجوان جو پارلیمانی انتخابات کے دوران جذباتی طور پر ابرار رشید کی طرف راغب ہوئے، اب شعوری طور انکا ساتھ دے رہے ہیں۔ انکے مطابق اب کوئی جذباتی ووٹ نہیں، اس وقت (پارلیمنٹ کے انتخابات میں) لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی کیونکہ ان کے بیٹے نے ان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے والد کو ووٹ دیں تاکہ وہ جیل سے رہا ہو جائیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ لوگوں نے سمجھا کہ ہمارا جیل جانا اور وہاں سے باہر آنا ایک قانونی جنگ ہے، اب یہ پورے جموں و کشمیر کا معاملہ ہے، ہم یہاں ٹوٹا ہوا مینڈیٹ نہیں چاہتے۔

عوامی اتحاد پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ

اشتیاق قادری جو اے آئی پی کی سیاسی امور کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں نے کہا کہ وہ کشمیر اور جموں کی 52 نشستوں پر امیدوار کھڑے کر رہے ہیں۔ قادری، جو سابق ٹریڈ یونین لیڈر ہیں، نے کہا کہ اے آئی پی پورے کشمیر میں ایسی کارکردگی کی توقع رکھتی ہے جو انہوں نے بارہمولہ کی پارلیمانی نشست میں دکھائی تھی۔ قادری کے مطابق انکی پارٹی کو اپوزیشن کے لیڈر اسلئے بھاجپا کی پارٹی کہنے لگے ہیں کیونکہ انکے پاس ان کے خلاف بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹی نے بجبہاڑہ - سری گفوارہ سیٹ پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے جہاں پی ڈی پی نے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو میدان میں اتارا ہے۔ اس سیٹ پر صرف این سی، پی ڈی پی اور بی جے پی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، اس سیٹ پر کوئی آزاد امیدوار نہیں لڑ رہا ہے۔ پارٹی کے ترجمان انعام الحق نے اس بارے میں ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ محبوبہ مفتی کے کزن سرور مفتی بجبہاڑہ سے انکے پارٹی کے امیدوار بننے والے تھے لیکن عین آخری مرحلے پر انہوں نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی اور ہمارے پاس کوئی اور فوری آپشن دستیاب نہیں ہوا۔

اے آئی پی کے ایک سابق رکن نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہیں کوئی ایسا تنظیمی ڈھانچہ نہیں ملا جو کشمیری نوجوانوں کے جزبات کی عکاسی کرتا ہو اسلئے انہوں نے اے پی آئی کا دامن تھاما اور اس الیکشن میں بھی وہ ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔ سابق ممبر نے کہا کہ اے آئی پی فی الحال چند لوگوں کا ایک ’’ریگ ٹیگ‘‘ گروپ ہے جن میں پرنس پرویز، اشتیاق قادری، فردوس بابا شامل ہیں جو اس کے معاملات چلاتے ہیں۔ حال ہی میں، اس کے سابق کارکن انعام النبی پارٹی کے چیف ترجمان کے طور پر واپس آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: باپ کا پرانا میدان، بیٹے کا نیا خواب: ڈاؤن ٹاؤن کے ساگر میں کس کی ہوگی جیت؟ - NC Father Son Duo Vs PDP

جنوبی کشمیر میں آزاد امیدوار کیا پڑیں گے طاقتور سیاست دانوں پر بھاری ؟ - JK Assembly Elections

Last Updated : Sep 3, 2024, 5:16 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.