سرینگر : سال 2013 کا جنوری مہینہ عائشہ ( نام تبدیل ) کی زندگی کا ایک ایسا مہینہ ہے جس کو یہ آخری دم تک نہیں بھول پائے گئی۔ کیونکہ 2 جنوری میں عائشہ پر نفرت انگیز ذہانت اور منفی سوچ کے حامل ایک لڑکے نے تیزاب سے حملہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں مزکورہ جواں سال لڑکی کا چہرہ نہ صرف بری طرح سے جھلس گیا بلکہ دائیں آنکھ کو کافی نقصان پہنچنے سے آنکھ کی روشنی بھی چلے گی۔تاہم عائشہ 12 برس تک اس درد کرب سے ہمیت اور حوصلے سے لڑتی رہی اور آج کی تاریخ میں یہ دوبارہ معمول کی زندگی گزار رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے تیزاب متاثرہ سے خاص بات چیت کی اور وہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ دن میری زندگی کا واقعی دردناک دن تھا جس کو بھولے بھی بھولا نہیں پاتی ہوں لیکن یہ میری ہمیت اور گھر والا کا حوصلہ ہی ہے جس سے مجھے اس کرب سے باہر نکالنے میں بے حد مدد کی اور ملک کے نامور کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجرن ڈاکٹر شاہن نورے یزدان نے علاج کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ میری خوشی قمستی تھی میں ڈاکٹر سمیر کول کے ذریعے ڈاکٹر شاہین نورے یزادن کے پاس پہنچی اور ڈاکٹر شاہن کو میں کسی مسیحا سے کم نہیں سمجھتی ۔نہ صرف انہوں نے میرا بہترین علاج کیا بلکہ ہمیت سے جینا بھی سیکھایا اور اگر اللہ تعالی کے بعد کسی کو سجدہ کرنی کی اجازت ہوتی تو میں ڈاکٹر شاہن نورے یزدان کا کرتی۔ انہوں نے کہا کہ اس واقع نے میری آنکھ کی روشنی تو چھینی اور میرے چہرے کو متاثر ضرور کیا لیکن ہمیت اور استقلال سے جینا بھی سیکھایا ۔ماضی اور آج کی عائشہ میں واضح فرق ہے۔انہوں نے کہا کہ میری ہمیت جو میں آپ کے سامنے اس واقع کو لے کر بات کررہی ہوں۔
علاج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ابتدائی طور اگرچہ میں مجھے ایس ایم ایچ میں علاج کیا گیا لیکن اس کے بعد مجھے دلی لیا گیا جہاں مجھے ڈاکٹر شاہین جیسے قابل ڈاکٹر نے علاج و معالجہ کیا اور ان برسوں کے دوران لیزر کے بغیر تقریباً 25 سرجریز انجام دی گئی ہیں۔ عائشہ ( نام تبدیل ) کہتی ہیں کہ پہلے کی چند سرجریز کے بعد میں ماسک پہنا کرتی تھی لیکن بعد میں یہ من بنایا کہ منہ چھپانے سے معمول کی زندگی پر واپس آنا مشکل ہوگا اور میں نے ہمیت اور حوصلے سے کام لے کر بنا ماسک سے زندگی سے لڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میرا کوئی بھی قصور نہیں تھا ۔میں نے سوچا کہ کیوں میں اپنا چھپاؤ۔ اور آج میں بنا ماسک کے بچوں کو معمول کے مطابق اسکول میں پڑھتی ہوں ۔
قابل ذکر ہے کہ متاثرہ کے ساتھ یہ واقع برزلہ سرینگر میں اس وقت پیش آیا جب کو ایک نجی ٹیوشن سینٹر میں بچوں کو پڑھانے جارہی تھی اور یہ کشمیر میں تیزاب پھینکنے کا ایک ایسا انسانیت کو شرمناک کرنا کا واقع تھا جو کہ پہلی مرتبہ یہاں پیش آیا تھا۔ اس واقع نے ہر کشمیری کے ضمیر کو جنجھوڑ کے رکھ دیا تھا جبکہ واقع کے خلاف ہر طرف اور ہر گوشے سے یہ صدائی بلند ہوئیں تھیں کہ ملزم کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
اس جرم کے پیچھے کے وجوہات یہ بتایا گیا کہ متاثرہ لڑکی نے ملزم کی شادی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ عائشہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں آج مجھے گلہ کسی سے بھی نہیں ہے البتہ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسی غیر سرکار تنظیم کی بے حد ضرورت ہے جو کہ مجھ جیسی تیزاب متاثرین کی بہبود پر کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: مالیگاؤں: گھر میں سورہی لڑکی پر تیزاب پھینک کر نامعلوم شخص فرار، حملہ میں والدین بھی شدید زخمی - acid attack in Malegaon
واضح رہے عائشہ پر تیزاب پھینکے جانے کے گھناؤنے واقع کے بعد وادی کشمیر میں ایسے مزید شرمناک واقع پیش آئے ۔ جن میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں دوسرا، سال 2014 کے دسمبر مہینے میں سرینگر کے نوشہرہ علاقے میں تیسرا جبکہ سال 2022 میں حول کی 24 سالہ جواں سال خاتون پر اسی طرح کا چوتھا تیزاب پھینکنے کا واقع پیش آیا۔ تاہم۔ ایسے شرمناک واقعات پر ہر ایک ذی شعور انسان سکتے میں ہے اور سوال کر رہا ہے کہ متاثرہ لڑکیوں کا قصور کیا تھا؟ جس پر قصور واروں نے ایسی گھناؤنی حرکت انجام دے ڈالی۔کشمیر میں لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے جیسے گھناؤنے جرائم کے بڑھتے رجحان نے ہر کشمیری کو فکر و تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔