سرینگر (جموں کشمیر) : نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو زور دیتے ہوئے کہ ’’آنے والے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات ایک اہم موقع (فراہم کرتے) ہیں جس سے گزشتہ پانچ برسوں میں خطے کے خلاف کیے گئے فیصلوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکتا ہے۔‘‘ عمر عبداللہ، جو وسطی کشمیر کی دو اسمبلی نشستوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی اور ان کے اتحادی کانگریس مضبوط فتح حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بڈگام میں نامزدگی فارم جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ ان کا بڈگام اور گاندربل دونوں حلقوں سے الیکشن لڑنا این سی کی طاقت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا: ’’بڈگام سے میرا انتخاب لڑنے کا فیصلہ این سی کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہاں ہماری پوزیشن کے بارے میں کوئی شک ہوتا تو میرے ساتھی مجھے اس سیٹ سے الیکشن لڑنے کے لیے نہ کہتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’این سی پورے خطے میں ایک غالب قوت ہے، جس میں بارہمولہ، سرینگر اور اننت ناگ جیسے اہم حلقے شامل ہیں۔‘‘
عمر عبداللہ، جنہوں نے ایک دن پہلے گاندربل سے اپنی نامزدگی داخل کی تھی، نے اعتماد ظاہر کیا کہ این سی - کانگریس اتحاد جموں و کشمیر کے تمام حلقوں میں فتح حاصل کرے گا۔ انہوں نے کہا: ’’پورے جموں و کشمیر میں این سی کی لہر ہے۔‘‘ اور کانگریس کے ساتھ این سی کا اتحاد ان کے جیتنے کے امکانات کو مزید مضبوط کرے گا۔
پارٹی کے منشور کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ ’’این سی کا مقصد 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کے خلاف کیے گئے اقدامات سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارا منشور واضح ہے۔ ہم پچھلے پانچ برسوں میں جموں کشمیر کے خلاف کیے گئے فیصلوں کا پیغام دنیا تک پہنچائیں گے۔‘‘
عمر عبداللہ نے ’’خطے میں حالیہ برسوں کے دوران حکومت کی جانب سے بدانتظامی اور کرپشن کے معاملات‘‘ کی بھی تحقیقات کرانے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا: ’’گزشتہ پانچ سے چھ برسوں کے دوران جو بدانتظامی، کرپشن اور دیگر بے ضابطگیاں ہوئیں، ہماری حکومت ان کی چھان بین کرے گی۔‘‘ حلقہ بندی پر بات کرتے ہوئے عمر نے تسلیم کیا کہ ’’یہ تبدیلیاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں کی گئی ہیں۔‘‘ تاہم، انہوں نے این سی کی کامیابی کے بارے میں پرامیدی ظاہر کی اور کہا کہ ’’این سی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں دو نشستیں جیتی تھیں، حالانکہ کوئی بائیکاٹ نہیں ہوا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’بات کی جا رہی تھی کہ این سی تبھی جیتتی ہے جب بائیکاٹ ہوتا ہے، لیکن حالیہ لوک سبھا انتخابات میں لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے اور ہم نے پھر بھی دو نشستیں جیت لیں۔‘‘
دوسری جانب، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سینئر رہنما غلام نبی لون ہنجورہ نے عمر عبداللہ کے دو حلقوں سے الیکشن لڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی اپنی سیاسی حمایت پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ ہانجورہ نے کہا: ’’اگر عمر عبداللہ کو واقعی یقین ہوتا کہ انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے تو وہ دو مختلف سیٹوں سے الیکشن لڑنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: کشمیر کے بدلتا سیاسی منظرنامہ، تاجر بھی کود پڑے انتخابی دنگل میں - JK Assembly Elections
کانگریس اور این سی اتحاد میں اختلافات: سابق لیڈرز خود مختار حیثیت میں سیاسی میدان میں کود پڑے