سرینگر: شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں پینے کے صاف پانی کی قلت کے خلاف علاقے کے باشندوں نے احتجاج کیا، تاہم احتجاج نے اس وقت تشدد اختیار کر لیا جب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے، جبکہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، بارہمولہ کے پٹن علاقے میں چھنی بل گاؤں کے رہائشیوں نے جمعہ کی صبح سرینگر - بارہمولہ ہائی وے کو بلاک کر دیا، جس کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیاں ہائی وے پر پھنس گئیں اور زبردست ٹریفک جام کا منظر دیکھنے کو ملا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ مقامی پولیس نے ٹریفک کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے مظاہرین کو ہائی وے سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے احتجاج تیز کر دیا جس سے تشدد پھوٹ پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جس کے جواب میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔
بی جے پی کے ایک کارکنان، جو احتجاجی مقام سے گزر رہے تھے، اپنے سکیورٹی گارڈز سمیت زخمی ہو گئے۔ بی جے پی نے ایک بیان میں کہا: ’’میڈیا انچارج کشمیر، ایڈوکیٹ ساجد یوسف شاہ، اور سوشل میڈیا انچارج، انجینئر ساحل بشیر بٹ پر نامعلوم ہجوم نے میرگنڈ، پٹن میں حملہ کیا۔ پی ایس اوز بھی شدید زخمی ہوئے۔‘‘
احتجاجیوں کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے انہیں پانی کی سپلائی نہیں مل رہی تھی، حالانکہ انہوں نے متعدد درخواستیں بھی کیں۔ پٹن کے ایک سماجی و سیاسی کارکن حامد راتھر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ علاقے میں پانی کی قلت ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کا سامنا لوگوں کو برسوں سے ہے۔ راتھر نے مزید کہا کہ ’’نہ تو انتظامیہ نے اپنے جل جیون مشن کے تحت لوگوں کے مسئلے کو حل کیا ہے اور نہ ہی ان کے پچھلے منتخب نمائندے نے اس مسئلے کو حل کیا ہے۔‘‘
ضلع انتظامیہ بشمول ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس ایس پی بارہمولہ گاؤں پہنچے اور لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔ ایس ایس پی بارہمولہ، امود ناگپورے نے کہا کہ ’’مظاہرین نے طویل عرصے تک ہائی وے کو بلاک کر رکھا تھا اور پتھراؤ کیا، پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں کا غصہ جائز ہے اور انتظامیہ نے ان کے مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘‘ ایس ایس پی نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ ’’اگر وہ پرامن طریقے سے اپنے مطالبات پیش کریں گے تو پولیس ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کرے گی اور نہ ہی گرفتاری عمل میں لائے گی۔‘‘
ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ، منگا شیرپا نے اعتراف کیا کہ ’’گاؤں میں پانی کی کمی ہے، کیونکہ یہ علاقہ ایک پانی کی پائپ لائن کے آخری سرے پر واقع ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک نئی پانی کی سپلائی اسکیم زیر تعمیر ہے جو مکمل ہونے کے بعد گاؤں کی پانی کی قلت کو ختم کر دے گی۔ منگا شیرپا نے کہا: ’’جب تک یہ اسکیم مکمل نہیں ہو جاتی، ہم گاؤں میں پانی کے ٹینکر بھیجیں گے تاکہ مقامی لوگ بحران کا سامنا نہ کریں۔‘‘
دفعہ370 کے خاتمے کے بعد کشمیر وادی میں بنیادی ضروریات کے لیے مقامی لوگوں کے احتجاج ختم ہو گئے ہیں کیونکہ لوگ عموماً خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم، آج کے پرتشدد احتجاج نے مقامی سیاستدانوں کو بھی حیران کر دیا ہے جنہوں نے پولیس پر بنیادی ضرورت کے احتجاج کو تشدد میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ علاقے کے سابق ایم ایل اے عمران رضا انصاری نے سماجی رابطہ گاہ پر لکھا: ’’چھنی بل (پٹن) میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش ہے، جہاں پانی کی قلت کا احتجاج پرتشدد ہو گیا۔ مقامی پولیس صورتحال کی ذمہ دار ہے، مظاہرین پر ضرورت سے زیادہ طاقت اور گولیوں کا استعمال کر رہی ہے۔ زخمیوں اور نقصان کی اطلاعات پریشان کن ہیں۔ حکام کو پانی کے بحران کو حل کرنا چاہیے اور پرامن حل کو یقینی بنانا چاہیے۔ پانی کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بنیادی ضرورت تک رسائی کو یقینی بنائے۔ مظاہرین کے حقوق کا احترام اور تحفظ کیا جانا چاہیے۔ پولیس کو اپنے کرتوت کا جواب دینا ہوگا۔‘‘
انصاری اس اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی رہے ہیں جہاں یہ احتجاج ہوا۔ ان کی پارٹی کے چیئرمین سجاد لون نے بھی لوگوں پر پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔ سجاد لون نے ایکس پر لکھا: ’’چھنی بل، پٹن میں کیا ہو رہا ہے؟ لوگ صرف پانی کی قلت کے خلاف احتجاج درج کر رہے ہیں۔ اور جموں کشمیر پولیس کا ردعمل کیا ہے؟ یہ ایسا ہے جیسے وہ کسی مقابلے (جنگ) کی جگہ پر ہیں۔ کیا آپ براہ کرم لوگوں کی (فریاد) سننا شروع کر سکتے ہیں اور انسانوں کو انسان سمجھنے کی مہربانی کر سکتے ہیں؟‘‘
قابل ذکر ہے کہ آبی ذخائر سے مالا مال وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں پانی کا بحران برسوں سے ایک مستقل مسئلہ رہا ہے اور انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے، شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں چار افراد مقامی چشمے سے پانی لانے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے، جنہیں مقامی باشندوں نے ’’شہداء آب‘‘ کا نام دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Stone Pelting in Kashmir: کشمیر میں پتھراؤ کے واقعات میں کمی آئی ہے: تحقیق