جموں: شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بودھ اور جین مت ماننے والوں اور دوسروں کو ملک کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ملکوں، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندوستان میں آئے ہوں۔ سماجی کارکن اور صحافی ستیس ورما نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے، جب ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اویسی سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
سماجی کارکن سہیل کاظمی کا کہنا ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے سے کسی کو ئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔اقلیتی طبقوں کو ایسا نہیں لگنا چاہئے کہ یہ قانون سب کے لئے برابر نہیں ہے۔ وہیں انہوں نے اس قانون کا یہ کہا کر خیر مقدم کیا کہ اس میں ترمیم کرکے سب کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 9 دسمبر 2019ء کو پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے تاہم اب انتخاب سے قبل اس قانون کو حکومت نے نافذ کیا