سرینگر: گرودوں کے تحفظ، ان کی اہمیت اور بیماری سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر برس مارچ کے دوسرے ہفتے کی جمعرات کو گرودوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات اور سمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا 85 کروڑ سے زائد افراد گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔وہیں ملک کے ساتھ ساتھ گزشتہ برسوں کے دوران کشمیر وادی میں بھی گرودوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جس میں نہ صرف بزرگ اشخاص بلکہ نوجوانوں مریضوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل ہیں
سکمز صورہ میں منایا گیا گردو کا عالمی دن سکمز صورہ کے شعبہ نیفرولوجی نے آج گردوں کا عالمی دن منایا۔اس سال کا تھیم ہے"گردوں کی صحت سب کے لیے اور نگہداشت تک مساوی رسائی" ہے۔آگاہی پروگرام کے دوران ماہرین نے صحت مند گردوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ شعبہ نیفرالوجی کے سربراہ پروفیسر محمد اشرف بٹ نے اپنے خطاب میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور ورلڈ کڈنی ڈے کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس کا مقصد گردوں کی بڑھتی ہوئی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔انہوں نے متعدد سطحوں پر لوگوں کو علاج کی مختلف سہولیات فراہم کرنے میں سکمز کے رول کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سکمز صورہ پہلا مرکز ہے جس نے کڈنی ٹرانسپلانٹ پروگرام کامیابی سے چلارہا ہے اور سب سے زیادہ کامیاب کڈنی ٹرانسپلانٹ بھی کیے گئے ہیں۔
سکمز صورہ میں منایا گیا گردو کا عالمی دن اس موقع پر پروفیسر بشیر اے لاوے نے ان آگاہی پروگراموں کے انعقاد کے لیے شعبہ نیفرالوجی کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ گردے کی صحت کی اہمیت اور ذیابیطس کی وجہ سے گردے کی مختلف بیماریوں میں اضافہ، خود ادویات، درد کش ادویات کا کثرت سے استعمال، یہ آگاہی پروگرام عوام میں آگاہی کے لیے بہت اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ نیفرالوجی ایک اہم مرکز ہے جس میں بڑی سہولیات موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: صحت مند کڈنی جسم کی ضرورت
اس موقع پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سکمز صوری پروفیسر فاروق اے جان نے بھی خطاب کیا اور اہسپتال میں دستیاب مختلف سہولیات کی تفصیلات دی۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ نیفرالوجی ہر سال مختلف آگاہی پروگراموں کے ذریعے گردے کی مختلف بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
واضح رہے گردوں کی بیماری سے جوج رہے لوگ نہ صرف زندگی اور موت کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں بلکہ علاج پر زرکثیر خرچ آنے سے امیر اور آسود حال بیماروں کو غریب بننے میں دیر نہیں لگتی۔